فرض روزوں کے دوران مشت زنی کا عمل کرنے کی صورت میں کیا روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟ اگر ٹوٹ جاتا ہے تو قضا کے ساتھ کفارہ بھی لازم ہوتا ہے؟ اور کیا فرض روزوں کے دوران عمداً جماع کی صورت میں کفارہ واجب ہوجاتا ہے؟ اور فرض روزے کی حالت میں عمداً کھانے پینے سے کفارہ لازم ہوگا یا نہیں؟ نرمی والا پہلو ضرور بتائیں۔
دو سال کے فرض روزے عمداً کھانے کی صورت میں اس شخص پر ہر سال کے دو الگ الگ کفارے واجب ہوں گے یا ضم ہو کر ایک ہی لازم ہوگا؟
1- مشت زنی سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، روزہ کی صرف قضا ہے کفارہ نہیں،نیزاس فعل پر خوب توبہ واستغفار بھی لازم ہے۔
3-2- رمضان کا فرض روزہ رکھنے کے بعد عمدا ًکھانے، پینے یا جماع کے ذریعے توڑنے سے قضا اور کفارہ دونوں لازم ہوتا ہے۔
4-روزوں کے کفارہ میں تداخل کے بارے درج ذیل تفصیل ہے:
اگر متعدد روزے عمداً کھانے پینے سے توڑے ہوں تو یہ روزے خواہ ایک رمضان کے ہوں یا کئی رمضان کے ان سب کے بدلے میں ایک کفارہ کی ادائیگی کافی ہوگی، البتہ اگر کفارہ ادا کرنے کے بعد پھر کوئی روزہ عمداً کھانے یا پینے سے توڑا تو اس کا کفارہ الگ ادا کرنا ہوگا، چاہے ایسا ایک ہی رمضان میں کیوں نہ ہوا ہو۔
اگر ایک رمضان میں متعدد روزے قصداً جماع سے توڑے ہوں تو ادائیگی کفارہ میں تداخل ہوگا، یعنی ان سب کے بدلہ میں ایک کفارہ ادا کرنا کافی ہوگا، البتہ اگر جماع کے ذریعہ دو یا دو سے زائد رمضانوں میں روزے توڑے ہوں تو تداخل نہیں ہوگا، بلکہ ہر رمضان کے روزوں کا کفارہ الگ الگ ادا کرنا لازم ہوگا۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"الصائم إذا عالج ذكره حتى أمنى فعليه القضاء، وهو المختار وبه قال عامة المشايخ كذا في البحر الرائق. وإذا عالج ذكره بيد امرأته فأنزل فسد صومه كذا في السراج الوهاج."
(کتاب الصوم، الباب الرابع فیما یفسد و ما لا یفسد، النوع الأول ما يوجب القضاء دون الكفارة، ج:1، ص:205، رشیدیة)
وفيه أيضا:
"من جامع عمدا في أحد السبيلين فعليه القضاء والكفارة،...إذا أكل متعمدا ما يتغذى به أو يتداوى به يلزمه الكفارة."
(کتاب الصوم، الباب الرابع فیما یفسد و ما لا یفسد،النوع الثاني ما يوجب القضاء والكفارة، ج:1،ص:205، رشیدیة)
فتاوی شامی میں ہے:
"ولو تكرر فطره ولم يكفر للأول يكفيه واحدة ولو في رمضانين عند محمد وعليه الاعتماد بزازية ومجتبى وغيرهما واختار بعضهم للفتوى أن الفطر بغير الجماع تداخل وإلا لا
(قوله: ولم يكفر للأول) أما لو كفر فعليه أخرى في ظاهر الرواية للعلم بأن الزجر لم يحصل بالأولى بحر (قوله: وعليه الاعتماد) نقله في البحر عن الأسرار ونقل قبله عن الجوهرة لو جامع في رمضانين فعليه كفارتان وإن لم يكفر للأولى في ظاهر الرواية وهو الصحيح. اهـ. قلت: فقد اختلف الترجيح كما ترى ويتقوى الثاني بأنه ظاهر الرواية."
(کتاب الصوم، باب مایفسد الصوم وما لا یفسدہ، ج:2، ص:413، سعید)
بدائع الصنائع میں ہے:
"ولو جامع في رمضان متعمدا مرارا بأن جامع في يوم ثم جامع في اليوم الثاني ثم في الثالث ولم يكفر فعليه لجميع ذلك كله كفارة واحدة عندنا، وعند الشافعي عليه لكل يوم كفارة، ولو جامع في يوم ثم كفر ثم جامع في يوم آخر فعليه كفارة أخرى في ظاهر الرواية، وروى زفر عن أبي حنيفة أنه ليس عليه كفارة أخرى، ولو جامع في رمضانين ولم يكفر للأول فعليه لكل جماع كفارة في ظاهر الرواية."
(کتاب الصوم، فصل حکم فساد الصوم، ج:2، ص:101، دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144607102751
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن