بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

روزہ کی حالت میں بیوی کا بوسہ و پستان منہ میں لینے کا حکم


سوال

روزہ کی حالت میں بیوی کابوسہ اور پستان کا منہ میں لیناجائز ہے یا نہیں؟

جواب

 روزے  کی حالت میں بیوی کے پستان چوسنا  مکروہ ہے، اس سے اجتناب کیاجائے، اگر دودھ حلق میں چلاگیاتوروزہ فاسد ہوجائے گا، اور روزے کی قضا بھی لازم ہوگی اور کفارے کے دو ماہ لگاتار روزے رکھنے ہوں گے۔

باقی اگر روزے کی حالت میں انزال کا خوف  نہ ہو  یا نفس کے بے اختیار ہوکر بیوی سے ہم بستری کرنے کا خطرہ نہ ہو تو  بیوی سے بوس وکنار کرنا جائز ہے،  ورنہ مکروہ ہے، اور مباشرتِ فاحشہ یعنی میاں بیوی کا آپس میں  شرم گاہ کا برہنہ بدن ملانا ہر حال میں مکروہ ہے، ان دونوں صورتوں میں اگر انزال ہوگیا تو روزہ فاسد ہوجائے گا،  قضا لازم ہوگی،  کفارہ لازم نہیں ہوگا، لیکن   ہم بستری کرلی تو قضا کے ساتھ  کفارہ  کے دو ماہ لگاتار روزے رکھنے ہوں گے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"و كره قبلة ومس ومعانقة ومباشرة فاحشة إن لم يأمن المفسد وإن أمن لا بأس.
قوله: وكره ’’قبلة۔۔۔ إلخ‘‘ جزم في السراج بأن القبلة الفاحشة بأن يمضغ شفتيها تكره على الإطلاق أي سواء أمن أو لا، قال في النهر: والمعانقة على التفصيل في المشهور، وكذا المباشرة الفاحشة في ظاهر الرواية، وعن محمد كراهتها مطلقاً، وهو رواية الحسن، قيل: وهو الصحيح. اهـ. واختار الكراهة في الفتح، وجزم بها في الولوالجية بلا ذكر خلاف، وهي أن يعانقها وهما متجردان ويمس فرجه فرجها، بل قال في الذخيرة: إن هذا مكروه بلا خلاف؛ لأنه يفضي إلى الجماع غالباً."

( کتاب الصوم، باب مایفسد الصوم وما لا یفسده،ج: 2،ص:417،ط:ایچ ایم سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولا ‌بأس ‌بالقبلة ‌إذا ‌أمن ‌على ‌نفسه ‌من ‌الجماع ‌والإنزال ويكره إن لم يأمن والمس في جميع ذلك كالقبلة كذا في التبيين.

وأما القبلة الفاحشة، وهي أن يمص شفتيها فتكره على الإطلاق، والجماع فيما دون الفرج والمباشرة كالقبلة في ظاهر الرواية. قيل إن المباشرة الفاحشة تكره، وإن أمن هو الصحيح كذا في السراج الوهاج. والمباشرة الفاحشة أن يتعانقا، وهما متجردان ويمس فرجه فرجها، وهو مكروه بلا خلاف هكذا في المحيط. ولا بأس بالمعانقة إذا لم يأمن على نفسه أو كان شيخا كبيرا هكذا في السراج الوهاج."

(كتاب الصوم وفيه سبعة أبواب،الباب الثالث فيما يكره للصائم وما لا يكره،ج:1،ص:200،ط:دار الفكر بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100610

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں