بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 ذو الحجة 1445ھ 03 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

رشوت لينے كا حكم


سوال

میں ایک کسٹم کلیرنگ کمپنی میں کام کرتا ہوں ،اس میں ہوتا اس طرح ہے کہ ہمیں اگر آرڈر ملتا ہے کسی گاڑی کا مثلا تو ہم اس آرڈر دینے والے سے پر گاڑی دو ہزار لیتے ہیں بطور کمیشن کے ،اور ہم کو تنخواہ تو الگ ملتی ہی ہے ،اور یہ بات ہمارے منیجر کے علم میں بھی ہے ،آیا یہ کمیشن لینا جائز ہے یا نہیں ؟ہم مزید وقت بھی دیتے ہیں کمپنی کو اور کمپنی ہمیں کوئی معاوضہ اس پر نہیں دیتی ہے ،تو کمیشن لینے کی وجہ یہ بھی ہے۔

جواب

صورتِ  مسئولہ میں جب  سائل کمپنی کا ملازم ہے، اس کو  مذکورہ کام کی تنخواہ دی جاتی ہے تو  مذکورہ کام پر  کمیشن لینا ناجائز اور حرام ہے ۔

مبسوط سرخسي ميں ہے:

"وقوله: لايرتشي المراد الرشوة في الحكم و هو حرام قال صلى الله عليه وسلم: «‌الراشي و المرتشي في النار» و لما قيل لابن مسعود -رضي الله عنه - الرشوة في الحكم سحت قال ذلك الكفر إنما السحت أن ترشو من تحتاج إليه أمام حاجتك۔"

(كتاب ادب القاضي ،ج:16،ص:67،ط:دار المعرفة)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144304100405

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں