میرے اور میرے شوہر کے درمیان اس بات پر اختلاف ہوا کہ میں نے اپنے شوہر سے کہا تھا کہ تم سوشل میڈیا سے اپنے فالتوں ڈانس اور لڑکیوں کے ساتھ ناجائز تصویریں مٹادو، تو اُس نے ناچ گانا اور ڈانس کو سوشل میڈیا سے ختم کرنے سے انکار کر دیا اور مجھ سے کچھ اس طرح کے الفاظ کہے کہ:
”تم خود مختار ہو اور تم آزاد ہو، آئندہ نہ تم مجھے کال کرنا اور نہ میں تمہیں کال کروں گا، یہ ہماری آخری باتیں ہیں۔“
ابھی میرا اس کے ساتھ صرف نکاح ہوا ہے، شادی یا رخصتی نہیں ہوئی اور میرے شوہر نے حقِ مہر میں ایک تین کنال کا گھر اور پانچ تولہ سونا لکھا تھا۔ تو کیا میرے شوہر کے اِن الفاظ کہ ”تم آزاد ہو اور تم خود مختار ہو“ کہنے سے شرعًا مجھے طلاق ہوئی یا نہیں؟ اگر طلاق ہوگئی ہے تو حقِ مہر کا کیا حکم ہے؟
واضح رہے کہ شوہر نے یہ الفاظ مجھے موبائل فون پر وائس میسج میں کہے ہیں۔
صورتِ مسئولہ میں سائلہ کا بیان اگر واقعۃً صحیح ہے کہ اس کے شوہر نے رخصتی اور خلوتِ صحیحہ (بند کمرہ میں تنہائی میں ملاقات) سے پہلے وائس میسج میں مذکورہ الفاظ ادا کیے ہیں کہ ”تم خود مختار ہو اور تم آزاد ہو، آئندہ نہ تم مجھے کال کرنا اور نہ میں تمہیں کال کروں گا، یہ ہماری آخری باتیں ہیں۔“ تو ملحوظ رہے کہ ”آزاد“ کا لفظ شرعًا صریح بائن میں داخل ہے، اس جملہ سے بلا نیتِ طلاق بھی بیوی پر ایک طلاقِ بائن واقع ہوجاتی ہے، لہٰذا مذکورہ جملہ سے سائلہ پر ایک طلاقِ بائن واقع ہوگئی ہے اور نکاح ختم ہوگیا ہے، اب رجوع جائز نہیں۔ چونکہ یہ طلاق رخصتی اور خلوتِ صحیحہ سے پہلے ہوئی؛ اس لیے سائلہ پر عدت گزارنا بھی لازم نہیں ہے، بلکہ بغیر کسی عدت کے وہ کہیں بھی نکاح کرسکتی ہے۔
باقی نکاح میں جتنا مہر طے ہوا ہے، شوہر پر سائلہ کو اُس کا آدھا بطورِ مہر ادا کرنا واجب ہے اور اگر وہ مکمل مہر پہلے سے ہی سائلہ کو ادا کرچکے ہیں تو طے شدہ مہر میں سے آدھا رکھ کر بقیہ مہر شوہر کے حوالہ کرنا ضروری ہوگا۔
نیز اگر آپ دونوں دوبارہ شادی کرنا چاہتے ہیں تو جب بھی چاہیں نئے مہر مقرر کر کے اور گواہوں کی موجودگی میں ایجاب و قبول کر کے دوبارہ ساتھ رہ سکتے ہیں، اس صورت میں آئندہ کے لیے شوہر کو دو طلاقوں کا اختیار ہوگا۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(قوله أنت حرة) أي لبراءتك من الرق أو من رق النكاح وأعتقتك مثل أنت حرة كما في الفتح، وكذا كوني حرة أو اعتقي كما في البدائع نهر (قوله اختاري أمرك بيدك) كنايتان عن تفويض الطلاق: أي اختاري نفسك بالفراق أو في عمل أو أمرك بيدك في الطلاق أو في تصرف آخر.
وفي النهر عن الحواشي السعدية: وهذا لا يناسب ذكره في هذا المقام، ولقد وقع بسبب ذلك خطأ عظيم من بعض المفتين فزعم أنه يقع به الطلاق وأفتى به وحرم حلالا نعوذ بالله من ذلك اهـ وقد نبه عليه الشارح عند قوله خلا اختاري ح أي حيث ذكر أنه لا يقع بهما الطلاق ما لم تطلق المرأة نفسها أي مع نية الزوج تفويض الطلاق لها أو دلالة الحال من غضب أو مذاكرة كما يأتي في الباب الآتي ويعلم مما هنا (قوله سرحتك) من السراح بفتح السين: وهو الإرسال أي أرسلتك لأني طلقتك أو لحاجة لي، وكذا فارقتك لأني طلقتك أو في هذا المنزل نهر."
(کتاب الطلاق، باب الكنايات، ج:3، ص:300، ط:ایج ایم سعید)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
"إذا طلق الرجل امرأته ثلاثا قبل الدخول بها وقعن عليها فإن فرق الطلاق بانت بالأولى ولم تقع الثانية والثالثة وذلك مثل أن يقول أنت طالق طالق طالق."
(کتاب الطلاق، الفصل الرابع في الطلاق قبل الدخول، ج:1، ص:373، ط:المكتبة الرشيدية كوئته)
وفيه أيضاً:
"أربع من النساء لا عدة عليهن: المطلقة قبل الدخول......"
(كتاب الطلاق، الباب الثالث عشر في العدة، ج:1، 526، ط:المكتبة الرشيدية كوئته)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(و) يجب (نصفه بطلاق قبل وطء أو خلوة) فلو كان نكاح على ما قيمته خمسة كان لها نصفه ودرهمان ونصف (وعاد النصف إلى ملك الزوج بمجرد الطلاق إذا لم يكن مسلما لها، وإن) كان (مسلما) لها لم يبطل ملكها منه بل (توقف) عوده إلى ملكه (على القضاء أو الرضا)."
وفي الرد: (قوله ويجب نصفه) أي نصف المهر المذكور، وهو العشرة إن سماها أو دونها أو الأكثر منها إن سماه، والمتبادر التسمية وقت العقد."
(كتاب النكاح، باب المهر، ج:3، ص:104، ط:ايج ايم سعيد)
وفيه أيضاً:
"(وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع) ومنع غيره فيها لاشتباه النسب."
(کتاب الطلاق، باب الرجعة، ج:3، ص:409، ط:ایج ایم سعید)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
"إذا كان الطلاق بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها."
(کتاب الطلاق، الباب السادس، ج:1، ص:473، ط:المکتبة الرشیدیة كوئته)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144606102068
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن