بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

رخصتی سے پہلے الگ الگ تین طلاق دینے کا حکم


سوال

عبد اللہ کا ایک لڑکی کے ساتھ نکاح ہوا، اور نکاح کے بعد رخصتی سے پہلے دونوں کی ٹیلی فون پر گپ شپ شروع ہوئی ،گپ شپ میں ان دونوں کی لڑائی ہوگئی ،اور لڑکی نے طلاق کا مطالبہ کردیا جس پر لڑکے نے میسج کر دیا "تمہیں طلاق ہے،تمہیں طلاق ہے،تمہیں طلاق ہے"سوال یہ ہے !کہ اس صورت میں طلاق ہوئی یا نہیں ؟اگر طلاق ہوئی ہے توکتنی طلاقیں ہوئی ہے؟اور نکاح کے بعدیہ لڑکا لڑکی کے گھر والوں کی اجازت سے اور ان کے گھر میں موجودگی کے دوران،لڑکی کے گھر جاکر بغیر کنڈی لگائےایک کمرے میں بیٹھ کر گپ شپ کرتے تھے، اس کے علاوہ ملاقات نہیں ہوئی ہے۔

جواب

واضح رہے کہ جس طرح زبان سے طلاق دینے سے طلاق واقع ہوجاتی ہے ، اسی طرح کسی چیز پر  لکھ کر دینے یا میسج میں لکھ کر بھیجنے سے بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے۔

لہٰذاصورت مسئولہ میں   جب مذکورہ لڑکے نے اپنی منکوحہ کو ان الفاظ کے ساتھ "تمہیں طلاق ہے ،تمہیں طلاق ہے ،تمہیں طلاق ہے "کا میسج کیاتو اس سے طلاق واقع ہوگئی ہے، چونکہ رخصتی (صحبت، خلوتِ صحیحہ) سے پہلے طلاق دی گئی ہے اور طلاق دیتے ہوئے تین الگ الگ جملے لکھےگئے ہیں اس لیے صرف ایک طلاق بائن واقع ہوئی ہے، باہمی رضامندی سے تجدید ِنکاح کیا جاسکتا ہے۔

رد المحتار میں ہے:

"قوله كتب الطلاق إلخ) قال في الهندية: الكتابة على نوعين: مرسومة وغير مرسومة، ونعني بالمرسومة أن يكون مصدرا ومعنونا مثل ما يكتب إلى الغائب. وغير المرسومة أن لا يكون مصدرا ومعنونا، وهو على وجهين: مستبينة وغير مستبينة، فالمستبينة ما يكتب على الصحيفة والحائط والأرض على وجه يمكن فهمه وقراءته. وغير المستبينة ما يكتب على الهواء والماء وشيء لا يمكنه فهمه وقراءته. ففي غير المستبينة لا يقع الطلاق وإن نوى، وإن كانت مستبينة لكنها غير مرسومة إن نوى الطلاق وإلا لا، وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو."

(کتاب الطلاق، مطلب فی الطلاق بالکتابۃ، ج:3، ص:246،ط:ایچ ایم سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"إذا طلق الرجل امرأته ثلاثا قبل الدخول بها وقعن عليها فإن فرق الطلاق بانت بالأولى ولم تقع الثانية والثالثة وذلك مثل أن يقول أنت طالق طالق طالق وكذا إذا قال أنت طالق واحدة وواحدة وقعت واحدة كذا في الهداية."

(کتاب الطلاق،الباب الثانی فی ایقاع الطلاق،ج:1،ص:373،ط:دار الفکر،بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144609102130

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں