بھائی نے دوسرے بھائی سے ادھار پیسے لیے اس طور پر کہ بھائی نے کہا کہ یہ پندرہ لاکھ میں دے رہا ہوں ڈالر کے ریٹ پر اور جب میں واپس لوں گا تو ڈالر کے ریٹ پر۔ ہاتھ میں جب پیسے دیے تو پندرہ لاکھ روپے تھے اور اب وہ پیسے اٹھارہ لاکھ سے بھی زیادہ بن رہے ہیں، تو اس کی کیا شرعی حیثیت ہے؟ اور یہ بھی ضرور بتائیے گا زائد پیسے لینا کس ضمن میں آئے گا؟
واضح ہو کہ قرض کا حکم یہ ہے کہ جس کرنسی میں دیا جائے، مقروض اسی کرنسی کے حساب سے اسے لوٹانے کا پابند ہوتا ہے لہذا صورت مسئولہ میں جب ایک بھائی نے دوسرے کو 15 لاکھ روپے قرض دیے، ڈالر کی صورت میں قرض نہیں دیاتھا، تو دوسرے بھائی کے ذمہ 15 لاکھ روپے ہی لوٹانا لازم ہے۔ باقی یہ شرط کہ واپسی ڈالر کے ریٹ پر ہوگی، یہ شرط لگانا جائز نہیں تھا اور اس شرط کا اعتبار نہیں ہے۔قرض میں دی گئی مذکورہ رقم سے زائد اگر رقم وصول کرے گا تو وہ زائد سود کہلائے گا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(لايبطل بالشرط الفاسد) لعدم المعاوضة المالية سبعة وعشرون ما عده المصنف تبعا للعيني وزدت ثمانية (القرض والهبة والصدقة والنكاح."
(كتاب البيوع، باب المتفرقات من أبوابها، ج5، ص249، سعيد)
"تنقیح الفتاوی الحامدیة"میں ہے:
"الدیون تقضیٰ بأمثالها".
(کتاب البیوع، باب القرض، ج؛1 ؍ 500 ، ط:قدیمی)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"و في الأشباه: کل قرض جر نفعاً حرام".
(کتاب البیوع، فصل فی القرض، ج:5 ؍ 144 ، ط:سعید )
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144407100916
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن