بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

سالے کے دھمکانے پر طلاق نامے پہ دستخط کرنا


سوال

لڑکی کے بھائی نے ڈرا دھمکا کے لڑکی کے شوہر سے تحریر لکھواکر دستخط کروالیے، جو  طلاق نامہ تھا اس کا متن لڑکی کا بھائی لکھ کر لایا تھا شوہر نے اس تحریر کو نقل کر کے دستخط کر دیے، منہ سے طلاق کے لفظ ادا نہیں کیے تو کیا طلاق واقع ہوگئی؟ واضح ہو اس طلاق میں عورت کی بھی رضامندی شامل تھی، شوہر طلاق دینا نہیں چاہتا تھا۔

جواب

واضح رہے کہ اگر زور زبردستی سے مراد اکراہِ شرعی ہے یعنی جان سے مارنے یا کسی عضو کے تلف کرنے کی دھمکی دے کر طلاق دینے پر مجبور کیا گیا ہو اور اسے اس بات کا خوف بھی ہو کہ دھمکی دینے والا وہ کام کر سکتا ہے جو وہ بول رہا ہے  تو اس صورت میں اگر شوہر نے زبان سے طلاق کے الفاظ کہہ دیے تو طلاق واقع ہوجائے گی، لیکن اگر زبان سے طلاق کے الفاظ نہیں کہے  بلکہ صرف طلاق کے الفاظ لکھے یا لکھے ہوئے طلاق نامے پر دستخط کیے تو اس سے طلاق واقع نہیں ہوگی۔

لیکن اگر زور زبردستی سے مراد یہ ہے کہ لڑکی کے بھائی   کے بہت زیادہ اصرار اور ضد کرنے، بار بار مطالبہ کرنے اور  دباؤ کی وجہ سے تنگ آکر  نہ چاہتے ہوئے طلاق دے دی یا لڑکی کے بھائی نے دھمکی دی  اور شوہر نے ڈر کر طلاق نامہ لکھ دیا جب کہ لڑکی کے بھائی سے دھمکی پورا کرنے کا خوف نہ ہو  تو اس صورت میں چاہے زبان سے کہا ہو یا  طلاق کے الفاظ لکھے ہوں یا طلاق نامے پر صرف دستخط کیے ہوں تمام صورتوں میں طلاق واقع ہوجائے گی۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں  اگر  شوہر نے طلاق نامہ ہونے کا علم  ہونے کے باوجود اس پر دستخط کردیے تھے، (اور بیوی کے بھائی کا مجبور کرنا بھی دوسری قسم کا تھا، پہلی صورت کا نہ تھا) تو اس  سے طلاق واقع ہوچکی ہے،  اگر  طلاق نامہ میں تین طلاق درج تھیں تو تین واقع ہوگئی ہیں، بیوی حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہے، نکاح ختم ہوچکا ہے، رجوع اور دوبارہ نکاح ناجائز اور حرام ہے۔ بیوی عدت (تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو، اور اگر حمل ہو تو بچہ کی پیدائش تک) گزار کر دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہے، البتہ جب بیوی اپنی عدت گزار کر دوسری جگہ شادی کرے اور دوسرے شوہر سے صحبت (جسمانی تعلق قائم) ہوجائے، پھر اس کا دوسرا شوہر اس کو طلاق دے دے  یا اس کا انتقال ہوجائے تو اس کی عدت گزار کر پہلے شوہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرسکتی ہے۔ اور اگر تین سے کم طلاقِ رجعی درج ہوں تو اتنی ہی طلاقِ رجعی واقع ہوں گی، اور عدت کے دوران رجوع جائز ہوگا، اور رجوع نہ کرنے کی صورت میں تکمیل عدت کے بعد تجدید نکاح کرنا ضروری ہوگا۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (7 / 175):

"بَيَانُ أَنْوَاعِ الْإِكْرَاهِ فَنَقُولُ: إنَّهُ نَوْعَانِ: نَوْعٌ يُوجِبُ الْإِلْجَاءَ وَالِاضْطِرَارَ طَبْعًا كَالْقَتْلِ وَالْقَطْعِ وَالضَّرْبِ الَّذِي يُخَافُ فِيهِ تَلَفُ النَّفْسِ أَوْ الْعُضْوِ قَلَّ الضَّرْبُ أَوْ كَثُرَ، وَمِنْهُمْ مَنْ قَدَّرَهُ بِعَدَدِ ضَرَبَاتِ الْحَدِّ، وَأَنَّهُ غَيْرُ سَدِيدٍ؛ لِأَنَّ الْمُعَوَّلَ عَلَيْهِ تَحَقُّقُ الضَّرُورَةِ فَإِذَا تَحَقَّقَتْ فَلَا مَعْنَى لِصُورَةِ الْعَدَدِ، وَهَذَا النَّوْعُ يُسَمَّى إكْرَاهًا تَامًّا، وَنَوْعٌ لَايُوجِبُ الْإِلْجَاءَ وَالِاضْطِرَارَ وَهُوَ الْحَبْسُ وَالْقَيْدُ وَالضَّرْبُ الَّذِي لَايُخَافُ مِنْهُ التَّلَفُ، وَلَيْسَ فِيهِ تَقْدِيرٌ لَازِمٌ سِوَى أَنْ يَلْحَقَهُ مِنْهُ الِاغْتِمَامُ الْبَيِّنُ مِنْ هَذِهِ الْأَشْيَاءِ أَعْنِي الْحَبْسَ وَالْقَيْدَ وَالضَّرْبَ، وَهَذَا النَّوْعُ مِنْ الْإِكْرَاهِ يُسَمَّى إكْرَاهًا نَاقِصًا.

وَأَمَّا شَرَائِطُ الْإِكْرَاهِ فَنَوْعَانِ: نَوْعٌ يَرْجِعُ إلَى الْمُكْرِهِ وَنَوْعٌ يَرْجِعُ إلَى الْمُكْرَهِ.

(أَمَّا) الَّذِي يَرْجِعُ إلَى الْمُكْرِهِ فَهُوَ أَنْ يَكُونَ قَادِرًا عَلَى تَحْقِيقِ مَا أَوْعَدَ؛ لِأَنَّ الضَّرُورَةَ لَا تَتَحَقَّقُ إلَّا عِنْدَ الْقُدْرَةِ،''وفي البحر: أن المراد الإكراه على التلفظ بالطلاق، فلو أكره على أن يكتب طلاق امرأته فكتب لا تطلق ؛ لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة، ولا حاجة هنا، كذا في الخانية." (رد المحتار: ٣/ ٢٣٦، سعيد)

الَّذِي يَرْجِعُ إلَى الْمُكْرَهِ فَهُوَ أَنْ يَقَعَ فِي غَالِبِ رَأْيِهِ وَأَكْثَرِ ظَنِّهِ أَنَّهُ لَوْ لَمْ يُجِبْ إلَى مَا دُعِيَ إلَيْهِ تَحَقَّقَ مَا أُوعِدَ بِهِ".

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144203200006

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں