میرا جب نکاح ہوا تو نکاح نامہ میں تین تولہ سونا (ڈیڑھ لاکھ روپے )لکھا گیا تھا جو مجھے شادی کے بعد دے دیا گیا تھا۔لیکن بعد میں ساس مطالبہ کرتی رہتی تھیں ۔مجھےانہوں نے یہ کہہ کر گھر سے نکال دیا کہ زیور دو، پھر تمہیں گھر میں آنے دیں گے۔تین ماہ تک میں والدہ کے گھر پر رہی ،پھر والدہ نے کہا کہ گھر بچاؤ تو میں نے مجبورًا وہ زیور شوہر کو دے دیے، لیکن میں اس پر خوش نہیں تھی۔میں نے دل سے نہیں دیے تھے بس اس لیے دیے تھے؛ تاکہ گھر بس جائے۔ اب مجھے پوچھنا یہ ہے کہ کیا شرعًا میرا اس میں حق ہے اور کیا میں اپنے اس زیور کا مطالبہ کر سکتی ہوں؟
صورتِ مسئولہ میں سائلہ نے اپنے مہر کےمذکورہ زیورات چوں کہ ساس کی زور زبردستی کی وجہ سے ناچاہتے ہوئے ان کے حوالے کیے تھے ،ان کو مذکورہ زیور مالک بنا کر نہیں دیے تھے لہذا وہ زیور بدستور سائلہ کی ملکیت میں ہیں، سائلہ اپنے زیورات کامطالبہ کرسکتی ہے۔
مسند احمد میں ہے:
"... ألا لاتظلموا، ألا لاتظلموا، ألا لاتظلموا، إنه لايحلّ مال امرئ إلا بطيب نفس منه."
(حدیث عم أبي حرّۃ الرقاشي،ج:34، ص:299، ط: مؤسسة الرسالة)
موسوعۃ فقہیہ کوئیتیہ میں ہے:
"للملك أسبابه التي تؤدي إلى تحقيقه.
ذكر ابن نجيم في الأشباه أن أسباب الملك هي:
المعاوضات المالية، والأمهار، والخلع، والميراث، والهبات، والصدقات، والوصايا، والوقف، والغنيمة، والاستيلاء على المباح، والإحياء، وتملك اللقطة بشرطه، ودية القتيل يملكها أولا ثم تنتقل إلى الورثة، ومنها الغرة يملكها الجنين فتورث عنه، والغاصب إذا فعل بالمغصوب شيئا أزال به اسمه وعظم منافعه ملكه، وإذا خلط المثلي بمثلي بحيث لايتميز ملكه."
(ملك،ج:39،ص:39،ط: وزارۃ الأوقاف و الشئون الإسلامیة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144303100580
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن