بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1446ھ 18 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

صدقہ فطر کے بعض احکام


سوال

1۔ فطرانہ کب ادا کرنا چاہیے؟ رمضان کے کس حصے میں—درمیان میں، اختتام پر، یا عید الفطر سے کچھ دن قبل؟

2۔ ایک آدمی کام کی غرض سے سعودی عرب گیا ہوا ہے اور چھٹی پر پاکستان آیا ہے۔ ابھی 17 روزوں کے بعد وہ واپس سعودی عرب چلا جائے گا۔ تو کیا وہ فطرانہ سعودی عرب کے حساب سے ادا کرے گا یا پاکستان کے؟ کیا وہ پاکستان میں ادا کر کے جائے یا سعودی عرب جا کر ادا کرے؟ 

جواب

1۔ صدقہ فطر رمضان المبارک میں بھی ادا کرنا درست ہے، تاہم عید الفطر کے دن عید کی نماز سے قبل صدقہ فطر ادا کرنا افضل ہے۔ اگر عید کی نماز سے پہلے ادا نہیں کیا تو عید کی نماز کے بعد ادا کرنا ہوگا، لیکن اس سے ثواب میں کمی ہوگی، اور عید کے دن سے زیادہ تاخیر کرنا خلاف سنت اور مکروہ ہے، تاہم پھر بھی ادا کرنا لازم ہوگا۔

2۔ مذکوورہ شخص پاکستان میں صدقہ فطر ادا کرکے سعودیہ جا سکتا ہے، البتہ اگر وہ پاکستان میں ادا نہیں کرتا ،تو اس صورت میں سعودیہ کے ریٹ کے مطابق  فطرانہ ادا کرنا ہوگا ،خواہ وہ سعودیہ میں اداکرے یا پاکستان رقم بھجواکر فطرانہ ادا کرائے۔

المحيط البرهاني میں ہے:

"ووقت وجوبها من حين يطلع الفجر الثاني من يوم الفطر حتى إن مات قبل ذلك، فلا وجوب،

ومن ولد أو أسلم قبله وجب، وأفضل لو قال: الأداء قبل خروجه إلى الصلاة.

ومن حكمها أنها لا تسقط بالتأخير، وإن طالت المدة، هكذا ذكر القدوري في «شرحه» وأن يجوز تعجيلها قبل يوم الفطر بيوم أو يومين في رواية الكرخي، وعن أبي حنيفة لسنة أو سنتين، وعند بعض المشايخ يجوز التعجيل في شهر رمضان، ولا يجوز قبله، وذكر الصدر الشهيد في شرح كتاب الصوم أن ذكر اليوم والسنة في رواية الكرخي، ورواية أبي حنيفة وقع اتفاقا، لا لتقييد الجواز به."

(کتاب الصوم،‌‌الفصل الثالث عشر في صدقة الفطر،ج:2،ص:409،ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"والأمر في حديث أغنوهم محمول على الاستحباب كما يشير إليه ما قدمناه عن البدائع وصرح في الظهيرية بعدم كراهة التأخير أي تحريما كما في النهر وسيأتي لقوله صلى الله عليه وسلم «من أداها قبل الصلاة فهي زكاة مقبولة ومن أداها بعد الصلاة فهي صدقة من الصدقات» رواه أبو داود وغيره لنقصان ثوابها فصارت كغيرها من الصدقات كما في الفتح."

(کتاب الزکوۃ،‌‌باب صدقة الفطر،ج:2،ص:359،ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"والمعتبر في الزكاة فقراء مكان المال، وفي الوصية مكان الموصي، وفي الفطرة مكان المؤدي عند محمد، وهو الأصح،

و في الرد:

(قوله: مكان المؤدي) أي لا مكان الرأس الذي يؤدي عنه (قوله: وهو الأصح) بل صرح في النهاية والعناية بأنه ظاهر الرواية كما في الشرنبلالية وهو المذهب كما في البحر فكان أولى مما في الفتح من تصحيح قولهما باعتبار مكان المؤدى عنه."

(کتاب الزکوۃ،فروع في مصرف الزكاة،ج:2،ص:355،ط:سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144609101499

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں