فطرانہ اور زکاۃ جب کسی کو دینا ہو تو کیا اس کو یہ بتانا ضروری ہے کہ آپ فطرانہ یا زکاۃ سمجھ کر قبول کر لیں ،یا بنا کچھ ظاہر کیے بس چپ چاپ دیدے ؟
صورت ِ مسئولہ میں اگر کوئی شخص کسی کی رعایت رکھتے ہوئےزکاۃ یا فطرانہ بتائے بغیر دیتا ہے تو اس کی زکاۃ اور فطرانہ ادا ہو جائے گا،بلکہ اگر وہ ہدیہ کہہ کر بھی دیتا ہے جبکہ نیت، زکوۃ یا فطرانہ کی ہو تو بھی زکوۃ اور فطرانہ ادا ہوجائے گا۔
فتاوی ہندیہ میں ہے :
"ومن أعطى مسكينا دراهم وسماها هبة أو قرضا ونوى الزكاة فإنها تجزيه، وهو الأصح هكذا في البحر الرائق ناقلا عن المبتغى والقنية."
( کتاب الزکاۃ، الباب الأول في تفسير الزكاة وصفتها وشرائطها، ج : 1، ص : 171،ط : دار الفکر بیروت )
فتاوی شامی میں ہے :
"(وشرط صحة أدائها نية مقارنة له) أي للأداء (ولو) كانت المقارنة (حكما)
(قوله نية) أشار إلى أنه لا اعتبار للتسمية؛ فلو سماها هبة أو قرضا تجزيه في الأصح."
( کتاب الزکاۃ، ج : 2 ، ص : 268 ،ط : سعید )
امداد الاحکام میں ہے :
" سوال : زید نے عمرو سے کہا کہ ہمیں دس روپے قرض دو ہم چند روز میں ادا کردیں گے ، عمرو نے خیال کیا بیچارہ زید غریب ہے، اور مستحق زکوٰۃ ہے مگر غیرت مانع ہو رہی ہے، اس نے دس روپے زکوۃ کے دیدئے زکوة کی نیت سے اور بری الذمہ ہو گیا، مگر سوال یہ ہے کہ زید بعد میں اگر دس روپے لا کر عمر وکو دے کہ لو بھائی آپ کے دس روپے ، تو عمرو کو لینے جائز ہیں یا نہیں ؟
جواب : اگر زید نے عمرو کو روپے دیتے ہوئے یہ کہہ دیا تھا کہ یہ روپیہ قرض مت سمجھنا ، بلکہ تمھاری ملک ہیں تم کو ویسے ہی ہبتہ ً بلا قرض دیتا ہوں (گو یہ نہ کہا ہو کہ زکوۃ دیتا ہوں) تب تو زید پر سے زکوۃ ساقط ہو گئی۔"
( کتاب الزکاۃ، ج : 2، ص : 9، ط : مکتبہ دارالعلوم کراچی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144609101569
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن