بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

صدقہ طرف کی ادائیگی کے لیے گندم اور دیگر اشیاء ((جو، کھجور اور کشمش) کی مقدار میں فرق کی وجہ


سوال

صدقہ فطر میں گندم کی مقدار دو کلو  اور باقی اشیاء کی مقدار تین کلو کیوں ہے؟

جواب

صدقہ فطر  میں چار  اجناس (گندم،جو،کھجور،کشمش)میں سے کسی ایک جنس  کا دینا یا اس کی مارکیٹی قیمت کادینا ضروری ہے، تفصیل مندرجہ ذیل ہے:

1:گندم نصف صاع یعنی پونے دو کلو   ، احتیاطًا دو کلو یا اس کی  بازاری قیمت دینی  چاہیے۔

2: جو ایک صاع یعنی تقریبًا  ساڑھے تین کلو یا اس کی  بازاری قیمت ہے۔

3:کھجور  ایک صاع یعنی تقریبًا  ساڑھے تین کلو یا اس کی  بازاری قیمت ہے۔

4:کشمش ایک  صاع یعنی تقریبًا  ساڑھے تین کلو یا اس کی  بازاری قیمت ہے۔

درحقیقت مذکورہ مقداریں حدیثِ مبارک میں منصوص ہیں، جن احادیث میں صدقہ فطر کی ادائیگی کا حکم دیا گیا ہے ان میں گندم کا نصف صاع اور جو، کھجور و کشمش کا ایک صاع دینے کا حکم دیا گیا ہے، نصف صاع وزن کے اعتبار سے تقریبًا پونے دو کلو بنتا ہے اور ایک صاع تقریبًا ساڑھے تین کلو بنتا ہے،  اس لیے گندم کے اعتبار سے پونے دو کلو گندم یا اس کی قیمت اور جو، کھجور و کشمش کے اعتبار سے ساڑھے تین کلو جو، کھجور ،کشمش یا ان کی قیمت صدقہ فطر کی ادائیگی کے  لیے طے کی گئی ہے۔ 

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 72):

’’وأما بيان جنس الواجب وقدره وصفته أما جنسه وقدره فهو نصف صاع من حنطة، أو صاع من شعير، أو صاع من تمر وهذا عندنا.

وقال الشافعي: من الحنطة صاع. واحتج بما روي عن أبي سعيد الخدري - رضي الله عنه - أنه قال: كنت أؤدي على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم صاعًا من بر۔

ولنا ما روينا من حديث ثعلبة بن صغير العذري أنه قال خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: «أدوا عن كل حر وعبد نصف صاع من بر، أو صاعا من تمر، أو صاعا من شعير» وذكر إمام الهدى الشيخ أبو منصور الماتريدي أن عشرة من الصحابة - رضي الله عنهم - منهم أبو بكر وعمر وعثمان وعلي - رضي الله عنهم - رووا عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في صدقة الفطر نصف صاع من بر واحتج بروايتهم.

وأما حديث أبي سعيد فليس فيه دليل الوجوب بل هو حكاية عن فعله فيدل على الجواز وبه نقول فيكون الواجب نصف صاع وما زاد يكون تطوعا على أن المروي من لفظ أبي سعيد - رضي الله عنه - أنه قال: «كنت أخرج على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم صاعًا من طعام، صاعًا من تمر، صاعا من شعير» وليس فيه ذكر البر فيجعل قوله صاعا من تمر صاعا من شعير تفسيرا لقوله «صاعا من طعام» ‘‘۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209200827

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں