رمضان میں ختم قرآن کے موقع پر بعض لوگ پروگرام اور مٹھائی کے لیے مسجد کے کسی سربراہ کے پاس پیسے جمع کرتے ہیں، اور ان پیسوں میں فطرانہ کے پیسے بھی ملا کر دیتے ہیں، تو بتائیں اس طرح فطرانہ ادا ہوگا یا نہیں؟ حالاں کہ اس پروگرام میں مستحق اور غیر مستحق بھی شریک ہوتے ہیں، راہنمائی فرمائیں۔
واضح رہے کہ صدقہ فطر کا مصرف وہی ہے جو زکوۃ کا ہے، اور زکوۃ ادا ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اسے کسی مستحق شخص کو بغیر عوض کے مالک بناکر دیا جائے، مستحق سے مراد وہ شخص ہے جس کی ملکیت میں بنیادی ضرورت اور واجب الادا قرض و اخراجات منہا کرنے کے بعد استعمال سے زائد اتنا مال یا سامان موجود نہ ہو جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت تک پہنچتی ہو، اور وہ سید/ ہاشمی بھی نہ ہو۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں صدقہ فطر کی رقم سے خریدی گئی مٹھائی اگر مستحق کو دی جائے تب تو صدقہ فطر ادا ہوجا ئےگا بصورتِ دیگر ادا نہیں ہوگا۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ومصرف هذه الصدقة ما هو مصرف الزكاة كذا في الخلاصة."
(كتاب الزكاة، ج:1، ص: 194، ط: دار الفكر)
بدائع الصنائع میں ہے:
"وأما ركن الزكاة فركن الزكاة هو إخراج جزء من النصاب إلى الله تعالى، وتسليم ذلك إليه يقطع المالك يده عنه بتمليكه من الفقير وتسليمه إليه أو إلى يد من هو نائب عنه."
(كتاب الزكاة، فصل ركن الزكاة، ج: 2، ص: 39، ط: دار الكتب العلمية)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"أما تفسيرها فهي تمليك المال من فقير مسلم غير هاشمي، ولا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله تعالى."
(كتاب الزكاة، الباب الأول في تفسيرها وصفتها وشرائطها، ج: 1، ص: 170، ط: رشيدية)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144607102177
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن