بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

صدقہ کی نیت سے جانوروں کا کھانا کھلانے کا حکم


سوال

کیا ہم صدقہ کی نیت سے کتے، بلی یا پرندے کو کھانا کھلا سکتے ہیں؟

جواب

موذی جانوروں کے علاوہ  دیگر  جانور کتے، بلی اور پرندوں وغیرہ کو نفلی صدقات میں سے کھلانا جائز اور باعث ثواب  ہے، لیکن واجبی صدقات زکات، صدقہ فطریامنت  وغیرہ جانوروں کو کھلانا جائز نہیں ہے، بل کہ واجبی صدقات مسلمان فقراء ومساکین کو دینا ضروری ہے۔ بہرحال زیادہ بہتر یہ ہے کہ نفلی صدقات بھی انسانوں کو ہی دیے جائیں۔

مشکاۃ  المصابیح میں ہے :

"وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " غفر لامرأة مومسة مرت بكلب على رأس ركي يلهث كاد يقتله العطش فنزعت خفها فأوثقته بخمارها فنزعت له من الماء فغفر لها " بذلك قيل: إن لنا في البهائم أجرا؟ قال: " في كل ذات كبد رطبة أجر " متفق عليه".

(كتاب الزكاة، باب فضل الصدقة، الفصل الأول، ج : 1، ص : 170، ط : رحمانية)

ترجمہ :

”حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ایک بد کار عورت کی بخشش کر دی گئی وہ ایک کتے کے قریب سے گزری جو کنویں کے قریب زبان باہر نکالے کھڑا تھا پیاس کی وجہ سے ہلاک ہونے کے قریب تھا۔ پس اس عورت نے اپنا موزہ اُتارا اور اپنی اوڑھنی کے ساتھ باندھا پھر اس کے لیے پانی نکالا ۔ اس وجہ سے اس کی بخشش ہو گئی۔ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے عرض کیا کہ کیا جانوروں کے ساتھ احسان کرنے پر بھی ثواب ملے گا ؟ فرمایا ہر تر جگر پر احسان کرنے سے ثواب ملتا ہے یعنی جاندار پر احسان کرنے سے ثواب ملتا ہے اس کو امام بخاری اور مسلم رحمہما اللہ تعالیٰ  نے نقل کیا ہے۔“(از مظاہرحق)

تشريح:

”صاحب مظاہر نے کہا ہے کہ ہر جانور کے کھلانے پلانے میں ثواب ہوتا ہے سوائے موذی جانوروں کے جن کے مارنے کا حکم ہے یعنی سانپ اور بچھو وغیرہ اور یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ کبھی کبیرہ گناہ بھی اللہ تعالی بغیر تو بہ کےبخش دیتا ہے۔ یہی اہلسنت کا مذہب ہے۔“(ازمظاہرحق)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے :

"قال المظهر: في ‌إطعام ‌كل ‌حيوان ‌وسقيه ‌أجر إلا أن يكون مأمورا بقتله كالحية والعقرب، قال ابن الملك: وفي الحديث دليل على غفران الكبيرة من غير توبة وهو مذهب أهل السنة، قيل: وفي الحديث تمهيد فائدة الخير وإن كان يسيرا (متفق عليه) ".

(كتاب الزكاة، باب فضل الصدقة، الفصل الأول، ج : 4، ص : 349، ط : دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144605100210

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں