(1) اگر کسی بندے کو سفر کے مسائل کا پتہ نہ ہو تو پوری نماز پڑھے گا کہ نہیں؟
(2) اگر کوئی سفر پر جارہا ہو، کس طرح اندازہ ہوگا کہ 78 کلو میٹر ہوگیا ہے؟ مطلب کس طرح اندازہ لگائے؟
(1) جس شخص کو سفر کے مسائل کا علم نہ ہو اسے چاہیے سفر شروع کرنے سے کسی مستند عالم یا مفتی سے رجوع کرکے مسائل معلوم کرلے، یا اس موضوع پر لکھی گئی مستند کتب کا مطالعہ کرلے، اس سلسلے میں’’سفر کے مسائل کا انسائیکلوپیڈیا‘‘ نامی کتاب سے استفادہ کرنا مفید رہے گا۔
اور اگر لاعلمی میں پوری نماز پڑھتا رہا، اور دو رکعت پر قعدہ بھی کرتا رہا تو وہ نمازیں ہوگئی ہیں، دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں، اور اگر کسی چار رکعت والی نماز کی دوسری رکعت میں قعدہ بھول گیا ہو تو اس نماز کا اعادہ ضروری ہے۔
(2) شرعی مسافتِ سفر سوا ستتر کلومیٹر ہے، لہذا اگر کوئی شخص اتنی یا اس سے زیادہ مسافت تک سفر پر جانے کے ارادے سے گھر نکلے، اور مطلوبہ مقام میں پندرہ دن سے کم ٹھہرنے کی نیت ہو تو ایسا شخص اپنی بستی کی حدود سے نکلنے کے بعد راستے میں بھی قصر کرے گا، اور منزل مقصود (جہاں پر پندرہ دن یا اس سے زیادہ ٹھہرنے کی نیت نہ کی ہو وہاں)پر پہنچ کر بھی قصر کرے گا، قصر کرنے کے لیے پوری مسافتِ سفر (سوا ستتر کلو میٹر)طے کرلینا شرط نہیں بلکہ سوا ستتر کلومیٹر یا اس سے زائد مسافت تک سفر کی نیت کے ساتھ سفر شروع کرکے بستی سے نکل جانا کافی ہے۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(من خرج من عمارة موضع إقامته) من جانب خروجه وإن لم يجاوز من الجانب الآخر......(قاصدا)......(مسيرة ثلاثة أيام ولياليها).........(بالسير الوسط مع الاستراحات المعتادة)........(صلى الفرض الرباعي ركعتين) وجوبا.
(قوله: قاصدا) أشار به مع قوله خرج إلى أنه لو خرج ولم يقصد أو قصد ولم يخرج لا يكون مسافرا ح.......وأشار إلى أن الخروج مع قصد السفر كاف وإن رجع قبل تمامه كما يأتي؛ حتى لو سار يوما ولم يكن صلى فيه لعذر ثم رجع يقضيه قصرا كما أفتى به العلامة قاسم."
(کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، ج:2، ص:121، ط:سعید)
البحر الرائق میں ہے:
"(قوله من جاوز بيوت مصره مريدا سيرا وسطا ثلاثة أيام في بر أو بحر أو جبل قصر الفرض الرباعي) بيان للموضع الذي يبتدأ فيه القصر ولشرط القصر ومدته وحكمه أما الأول فهو مجاوزة بيوت المصر لما صح عنه عليه السلام أنه قصر العصر بذي الحليفة."
(كتاب الصلاة، باب المسافر، ج:2، ص:226، ط:دار الكتب العلمية بيروت)
الدر المختار میں ہے:
"(فلو أتم مسافر إن قعد في) القعدة (الأولى تم فرضه و) لكنه (أساء) لو عامدا لتأخير السلام وترك واجب القصر وواجب تكبيرة افتتاح لنفل وخلط النفل بالفرض، وهذا لا يحل كما حرره القهستاني بعد أن فسر أساء بأثم واستحق النار (وما زاد نفل) كمصلي الفجر أربعا (وإن لم يقعد بطل فرضه) وصار الكل نفلا لترك القعدة المفروضة إلا إذا نوى الإقامة قبل أن يقيد الثالثة بسجدة لكنه يعيد القيام والركوع لوقوعه نفلا فلا ينوب عن الفرض ولو نوى في السجدة صار نفلا."
(کتاب الصلاة، باب صلاة المسافر، ج:2، ص:128، ط:سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144203201101
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن