بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

صاحبِ نصاب کون ہے؟


سوال

زکوۃ  کی فرضیت اس وقت ہوگی جب مال نصاب کے برابر  رقم پورے  سال تک موجود  ہوگی؟ عمومًا تنخواہ کی صورت میں مال نصاب کے برابر رقم تو آتی ہے، لیکن وہ پورا مہینہ بھی جمع نہیں رہتی یا پورے سال بچت میں نہیں رہتی!

جواب

زکات کے واجب ہونے کے  لیے صاحبِ نصاب ہونا شرعًا ضروری ہے، صاحبِ  نصاب سے مراد وہ شخص ہے، جس کے  پاس  ساڑھے  سات تولہ یا اس سے زائد سونا ہو، یا ساڑھے باون تولہ یا اس سے زائد چاندی ہو، یا کچھ سونا کچھ چاندی جن کی مجموعی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے مساوی یا اس سے زائد ہو، یا اس کے پاس ضروریاتِ اصلیہ سے زائد اتنی نقدی ہو  جو  ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے مساوی یا اس سے زائد  ہو، یا کچھ سونا اور بنیادی ضرورت سے زائد کچھ رقم یا مالِ تجارت ہو جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ ہو،  پس جس روز کوئی شخص صاحبِ نصاب بنتا ہے، اس کے بعد  سال مکمل ہونے پر بھی   اگر وہ صاحبِ نصاب برقرار رہے تو اس صورت میں اس پر زکات کی ادائیگی  واجب ہوتی ہے، درمیان سال میں مال کی کمی زیادی کا اعتبار نہیں ہوتا، البتہ اگر سال مکمل ہونے پر وہ صاحبِ نصاب باقی نہ رہے تو اس صورت میں  زکات کی ادائیگی واجب نہیں ہوتی۔ اسی طرح اگر تنخواہ ملنے پر کل رقم نصاب کے برابر ہوجاتی ہو، لیکن ماہانہ ضروری اخراجات منہا کرنے کے بعد رقم نصاب کے برابر نہ رہتی ہو تو ایسا شخص نصاب کا مالک نہیں قرار پائے گا۔

لہذا صورتِ  مسئولہ  میں اگر  آپ تفصیل  بالا کے  مطابق  صاحبِ نصاب  ہوں تو اس صورت میں آپ پر  زکات واجب ہوگی، بصورتِ دیگر واجب نہ ہوگی۔   فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209200439

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں