بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

سائن بورڈ لگانے پر ليے جانے والے ٹیکس كا حكم


سوال

شاہراہوں کی دونوں جانب لوگوں کی ذاتی املاک میں بھی اگر کوئی ایڈورٹائیزنگ بورڈ( advertising board) لگانا چاہے تو حکومت کو اس کا ٹیکس ادا کرنا لازمی ہوتا ہے، تو کیا لوگوں کی ذاتی املاک میں حکومت کا اس طرح ٹیکس کا مطالبہ کرنا جائز ہے یا نہیں؟ نیز ان ٹیکسوں سے اپنے آپ کو بچانے کی تدبیر کرنا کیا جائز ہوگا یا نہیں؟ اور اگر کسی طریقہ سے ان ٹیکسوں کی ادائیگی سے اپنے آپ کو بچالیا جائے تو کیا جائز ہوگا یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں ایڈورٹائیزنگ بورڈ  اگر شرعی قباحتوں یعنی تصویر ،حرام اشیاء کی تشہیر  یا غیر شرعی  جملے وغیرہ سے پاک ہے تو اس کا نصب کرنا درست ہے ،بصورتِ دیگر درست نہیں ۔

جہاں تک ٹیکس کی بات ہے تو اس بارے میں تفصیل یہ ہے کہ حکومت کو انتظامی امور ،ملک میں ترقیاتی کام ،سرحد کی حفاظت سرکاری ملازمین کی تنخواہیں اور دیگر امور کے لیے وسائل کی ضرورت ہوتی ہے ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین کے زمانہ میں بیت المال کا مضبوط و مربوط نظام تھا جس میں مختلف قسم کے اموال جمع ہوتے تھے ،مثلاً مال غنیمت کا خمس ،مال فئی (وہ مال جو بغیر کسی جنگ کے حاصل ہو)،معادن (کانوں سے نکلنی والی اشیاء )کا خمس،رکاز (قدیم زمانہ کا برآمد شدہ خزانہ)کا خمس ،غیر مسلموں سے حاصل شدہ جزیہ ،خراج،تجارتی ٹیکس ،لا وارث کا مال و میراث ،لیکن چوں کہ موجودہ دور میں اس طرح کے وسائل بالکل ہے ہی نہیں تو  اخراجات وغیرہ کو پورا کرنے کے لیے ٹیکس کے نظام کی ضرورت پڑی، اس لیے امورِ مملکت کو چلانے کی خاطر حکومت کے لیے بقدرِ ضرورت اور رعایا کی حیثیت کو مدِّ نظر رکھ کر ٹیکس لینے کی گنجائش نکلتی ہے،لہذامندرجہ ذیل  چند شرائط کے ساتھ حکومت اپنے مصارف پورا کرنے کے لیے ٹیکس لے سکتی ہے:

1۔ بقدرِ ضرورت ہی ٹیکس لگایا جائے۔

2 ۔لوگوں کے لیے قابلِ برداشت ہو۔

3۔وصولی کا طریقہ مناسب ہو۔

4۔ ٹیکس کی رقم کو ملک و ملت کی واقعی ضرورتوں اور مصلحتوں پر صرف کیاجائے۔ 

جس ٹیکس میں مندرجہ بالا شرائط کا لحاظ  ہو وہ ریاست کو ادا کیا جائے ، اس ے نہ دینے کے لیے کسی قسم کا حیلہ کرنا جائز نہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"المكس ما يأخذه العشار والخفارة ما يأخذه الخفير، وهو المجير ومثله ما يأخذه الأعراب في زماننا من الصر المعين من جهة السلطان نصره الله تعالى لدفع شرهم."

(کتاب الحج،ج:2،ص:464،ط:سعید)

الدر المختار میں ہے:

"الكذب مباح لإحياء حقه ودفع الظلم عن نفسه والمراد التعريض لأن ‌عين ‌الكذب حرام قال: وهو الحق قال تعالى - {قتل الخراصون} [الذاريات: 10]-"

(کتاب الحظر و الاباحۃ،ج:6،ص:427،ط:سعید)

صحیح البخاری میں ہے:

"عن ابن عباس، عن أبي طلحة رضي الله عنهم قال:قال النبي صلى الله عليه وسلم: (لا تدخل الملائكة ‌بيتا ‌فيه ‌كلب ولا تصاوير)."

(کتاب اللباس ،باب التصاویر،ج:5،ص:2220،رقم :5605،ط:دار ابن کثیر)

وفیہ ایضاً:

"حدثنا سفيان: حدثنا الأعمش، عن مسلم قال: كنا مع مسروق في دار يسار بن نمير، فرأى في صفته تماثيل، فقال: سمعت عبد الله قال:سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: (إن أشد الناس عذابا عند الله يوم القيامة المصورون)."

(کتاب اللباس ،باب التصاویر،ج:5،ص:2220،رقم :5606،ط:دار ابن کثیر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101099

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں