ہم سنی ڈائریکٹ خاک پر سجدہ کیوں نہیں کرتے ، ایک صاحب کا کہنا ہے خاک پر سجدہ ایک ایساعنوان ہےجو قرآن وسنت سے ثابت ہے "وجعلت لي الارض مسجدا"اللہ نےمیرےلیےزمین کو(خاک کو)سجدہ گاہ قرار دیا ہے، یہ حدیث پیغمبر ہے، جسے علمائے اہل سنت نےاپنی کتابوں میں بالخصوص بخاری شریف ،نسائی ،ابن ماجہ اورسنن ابوداؤد وغیرہ میں نقل کیا ہے ،جب پیغمبر سجدہ کیا کرتے تھے توآپ قالین پر کپڑے پرسجدہ نہیں کرتے تھے،پیغمبر اکرم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ایک صحابی کودیکھاجونماز پڑھ رہے تھے اور اس صحابی کاعمامہ زمین پرپیشانی لگنے میں حائل ہورہاتھا ،آپ علیہ السلام نے اس کی نماز ختم ہونے کا انتظار نہیں کیا،اس کی اہمیت کے پیش نظر اور اپنے ہاتھ سے اس کے عمامے کوسر کی جانب دھکیل دیا، لہذا کپڑے پر سجدہ یہ پیغمبر اکرم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی سنت سے ہٹ کرہے، "السجودعلي الخمرة"اہل سنت کی کتب میں ایک پورا باب ہے، ٹھیکرے پرسجدہ اور پختہ مٹی پر سجدہ یہ پیغمبر اکرم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے، اور ایک دوسرے صاحب کہتے ہیں زمین پر سجدہ افضل ہے ،سب کا اتفاقی مسئلہ ہے،آپ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم مٹی پر نماز پڑھتے تھے۔براہ کرم راہنمائی فرمائیں۔
صورت مسئولہ میں خاک پر سجدہ کرنا جائز ہے، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :میرے لیے تمام زمین کو سجدہ گاہ اور پاک قرار دیاگیا ہے ، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ (پاک) زمین کا ہر حصہ سجدہ گاہ اور پاک کرنے والا ہے: لہذا اس پر سجدہ اور تیمم کیا جاسکتا ہے ،پس اس روایت کی تفسیریہ ہے کہ خداکی عبادت اور اسکے سجدہ کے لیے کوئی جگہ مخصوص نہیں ہے، بلکہ مسلمانوں کے لیے ہرپاک جگہ پر سجدہ کرنا ہے، دوسرے ادیان والوں کے برخلاف جو عبادت کی جگہ فقط کلیسا یا کنیسہ کو قرار دیتے ہیں ۔
البتہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ خاک پر سجدہ کرنا لازم وضروری ہے اور اس کے بغیر نماز ہی نہیں ہوتی، کیوں کہ تمام زمین کو سجدہ گاہ بنانے کی حکمت تو اس امت مرحومہ کو عبادت میں آسانی فراہم کرنا ہے، اور اگر صرف خاک کو سجدہ گاہ مانا جائے تو پھر تمام زمین کو سجدہ گاہ قرار دینے کی حکمت ہی فوت ہوجاتی ہے اور وہی سابقہ امت کی طرح مشقت لازم آئے گی کہ جب تک خاک میسر نہ ہو تب تک نماز نہیں پڑھ سکیں گے اور پھر بعض لوگوں کی طرح ہر کسی کو ہر جگہ اپنی جیب میں خاک لے کر گھومنا پڑے گا۔
اسی طرح یہ کہنا بھی درست نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ ٖ وسلم قالین یا کپڑے پر سجدہ نہیں کرتے تھے ، بہت ساری صحیح احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے چٹائی پر نماز پڑھی ہے ، لہذا چٹائی پر نماز پڑھنا درست ہے، اور چٹائی پر دری اور قالین کو بھی قیاس کرنا درست ہے۔
صحیح مسلم میں ہے:
"حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة. حدثنا محمد بن فضيل عن أبي مالك الأشجعي، عن ربعي، عن حذيفة؛ قال:قال رسول الله صلى الله عليه وسلم "فضلنا على الناس بثلاث: جعلت صفوفنا كصفوف الملائكة،وجعلت لنا الأرض كلها مسجدا. وجعلت تربتها لنا طهورا، إذا لم نجد الماء". وذكر خصلة أخرى."
(كتاب المساجد ومواضع الصلاة ج: 2 ص: 63 ط: دار الطباعة العامرة)
ترجمہ :"حضرت حذیفہ۔ رضی اللہ عنہ۔نے فرمایا کہ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ نے فرمایا ہمیں (امت محمد یہ کو) سارے لوگوں پر تین باتوں سے فضلیت دی گئی ہے ایک یہ کہ ہماری صفوں کا مرتبہ اللہ کے یہاں ملائکہ کی صفوں کا ہے، دوسرے یہ کہ ساری زمین ہماری لئے مسجد بنادی گئی اور اس کی مٹی کو ہمارے لئے پاکی کے حصول کا ذریعہ بنادیا گیا جب ہمیں پاکی نہ ملے ،اور ایک بات اور ذکرکی" ۔(تحفہ المنعم)
بذل المجہود فی حل سنن ابی داود میں ہے:
"ثم قال الخطابي: إنما جاء قوله: "جعلت الأرض مسجدا وطهورا" على مذهب الامتنان على هذه الأمة بأن رخص لهم في الطهور في الأرض والصلاة عليها في بقاعها، وكانت الأمم المتقدمة لا يصلون إلا في كنائسهم وبيعهم."
(باب في المواضع التي لا تجوز فيها الصلاة ج: 3 ص: 224 ط: مركز الشيخ أبي الحسن الندوي للبحوث والدراسات الإسلامية)
صحیح بخاری میں ہے:
"حدثنا أبو الوليد قال: حدثنا شعبة قال: حدثنا سليمان الشيباني، عن عبد الله بن شداد، عن ميمونة قالت:كان النبي صلى الله عليه وسلم يصلي على الخمرة."
(كتاب الصلاة ، باب الصلاة على الخمرة ج: 1 ص: 86 ط: دار طوق النجاة)
ترجمہ :"حضر ت میمونہ ۔رضی اللہ عنھا ۔فرماتی ہیں کہ نبی اکرم ۔صلی اللہ علیہ وسلم ۔چٹائی پرنماز ادا فرما لیتے تھے" ۔
تشریح :"چو نکہ صلوات علی الخمرۃ کی کراہت حضرت عمر بن عبدالعزیز سے منقول ہے اس لئے اس پر اسی باب سے رد فرمارہے ہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ خمرۃ اس چھوٹی سی چٹائی کو کہتے ہیں جو مصلی کے لئے پوری نہ ہو تو ایسی صورت میں بعض حصہ نماز تو ارض پر ہو گا اور بعض غیر ارض پر اس کے جواز پر متنبہ فرمادیا "۔(تقریر بخاری شریف)
مصنف عبد الرزاق میں ہے :
"عن معمر سألت: الزهري، عن السجود على الطنفسة؟ قال: لا بأس بذاك كان رسول الله صلى الله عليه وسلم "يصلي على الخمرة".
(كتاب الصلاة ، باب الصلاة على الخمرة، والبسط ج:1 ص:394 ط:المكتب الإسلامي)
مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے :
"حدثنا عباد بن العوام عن الشيباني عن عبد الله بن شداد قال: حدثتني ميمونة قالت: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- (يصلي) وأنا (بحذائه) فربما أصابني ثوبه إذا سجد، وكان يصلي على (الخمرة)".
(كتاب الصلوات ج:3 ص:129ط:دار كنوز إشبيليا للنشر والتوزيع)
وفیہ ایضا:
"حدثنا (الثقفي) عن أيوب عن أنس بن سيرين عن أنس بن مالك عن أم سليم: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- كان يصلي (في بيتها) على الخمرة".
(كتاب الصلوات ج:3 ص:382ط:دار كنوز إشبيليا للنشر والتوزيع)
وفیہ ایضا:
"حدثنا عبدة عن سعيد عن قتادة عن سعيد بن المسيب قال: الصلاة على الخمرة سنة".
(كتاب الصلوات ج:3 ص:384ط:دار كنوز إشبيليا للنشر والتوزيع)
شرح صحیح البخاری لابن بطال میں ہے:
"ولا خلاف بين فقهاء الأمصار فى جواز الصلاة على الخمرة إلا شىء روى عن عمر ابن عبد العزيز أنه كان لا يصلى على الخمرة، ويؤتى بتراب فيوضع على الخمرة فى موضع سجوده ويسجد عليه، وقال شعبة، عن حماد: رأيت فى بيت إبراهيم النخعى حصيرا، فقلت: أتسجد عليه؟ فقال: الأرض أحب إلى، وهذا منهما على جهة المبالغة فى الخشوع لا أنهما لم يريا السجود على الخمرة؛ لأن النبى (صلى الله عليه وسلم) قد صلى عليها، وقال سعيد بن المسيب: الصلاة على الخمرة سنة، فلا يجوز لهما مخالفة سنته عليه السلام، وإنما فعلا ذلك على الاختيار، إذ قد ثبت عنه عليه السلام، أنه كان يباشر الأرض بوجهه فى سجوده، وقد انصرف من الصلاة وعلى جبهته وأنفه أثر الماء والطين؛ فذلك كله مباح بسنته عليه السلام."
(كتاب الصلاة ، باب إذا أصاب ثوب المصلي امرأته إذا سجد ج: 2 ص: 43 ط: مكتبة الرشد)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144502101166
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن