بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

سجدۂ سہو میں ایک سجدہ کرنے کا حکم


سوال

سجدۂ سہوہ کے دو سجدے ہوتے ہیں لیکن اگر کوئی شخص سجدۂ سہوہ میں ایک ہی سجدہ کر لے تو اِس کا کیا حکم ہے؟ نئی نماز پڑھنی ہوگی یا ادا سمجھی جائے گی؟ 

جواب

 واضح رہے کہ سجدہ سہو میں دو سجدے کرنا واجب ہیں، لہٰذا اگر کسی  شخص پر  نماز میں سجدۂ سہو  لازم ہوا اور اس نے صرف ایک سجدہ کیا تو سجدۂ سہو ادا نہیں ہوگا، اس نماز کا وقت گزرنے سے پہلے پہلے اعادہ  ( نماز کا دہرانا )واجب ہوگا،  نماز کا وقت گزرنے کے بعد اعادہ مستحب ہوگا۔

فتاوٰی شامی میں ہے:

" و) يجب أيضا (تشهد وسلام) لأن سجود السهو يرفع التشهد".

 وفي الرد:(قوله يرفع التشهد) أي قراءته. حتى لو سلم بمجرد رفعه من سجدتي السهو صحت صلاته ويكون تاركا للواجب، وكذا يرفع السلام۔ إمداد."

(کتاب الصلاۃ،باب سجود السہو،ج:2،ص78،79،ط:سعید)

مبسوط سرخسی میں ہے:

"قال: (وإن كان شك في سجود السهو عمل بالتحري ولم يسجد للسهو) لما بينا أن تكرار سجود السهو في صلاة واحدة غير مشروع، ولأنه لو سجد بهذا السهو ربما يسهو فيه ثانيا وثالثا فيؤدي إلى ما لا نهاية له، وحكي أن محمدا - رحمه الله تعالى - قال للكسائي وكان ابن خالته: لم لا تشتغل بالفقه مع هذا الخاطر، فقال: من أحكم علما فذلك يهديه إلى سائر العلوم، فقال محمد - رحمه الله تعالى - إني ألقي عليك شيئا من مسائل الفقه فخرج جوابه من النحو.؟ فقال: هات، فقال: ما تقول فيمن سها في سجود السهو ففكر ساعة.؟ فقال: لا سهو عليه. فقال: من أي باب من النحو خرجت هذا الجواب.؟ فقال: من باب أن ‌المصغر لا يصغر فتعجب من فطنته."

(کتاب الصلاۃ ،باب سجود السہو،ج:1،ص:164،ط:دار المعرفۃ)

ہدایہ میں ہے:

" ‌يسجد ‌للسهو في الزيادة والنقصان سجدتين بعد السلام ثم يتشهد ثم يسلم ."

(کتاب الصلاۃ ،باب سجود السہو،ج:1،ص:74،ط:دار احیاءالتراث العربی)

فتاوٰی شامی میں ہے:

"(يجب بعد سلام واحد عن يمينه فقط) لأنه المعهود، وبه يحصل التحليل وهو الأصح بحر عن المجتبى. وعليه لو أتى بتسليمتين سقط عنه السجود؛ ولو سجد قبل السلام جاز وكره تنزيها. وعند مالك قبله في النقصان وبعده في الزيادة، فيعتبر القاف بالقاف والدال بالدال (سجدتان)."

(کتاب الصلاۃ،باب سجود السہو،ج:2،ص77،ط:سعید)

وفيه أيضا:

"قيد في البحر في باب قضاء الفوائت وجوب الإعادة في أداء الصلاة مع كراهة التحريم بما قبل خروج الوقت، أما بعده فتستحب."

(کتاب الصلاۃ،واجبات الصلاۃ،ج:1،ص:457،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101440

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں