1۔ اسلام میں سال گرہ منانے کا کیا حکم ہے؟کیا یہ کسی غیر مسلم مذہب کی عبادت کا حصّہ ہے؟سال گرہ کی مبارک باد دینا یا اس میں شرکت کرنا کیسا ہے؟
2۔ شریعت میں نیت کا کیا حکم ہے؟مثلاً میں نے یہ نیت کی کہ میں کسی کی سال گرہ میں شرکت نہیں کروں گی، پھر میں نے شرکت کرلی، تو اس کا کیا حکم ہے؟
3۔ مسنون دعائیں، وظیفہ اور اذکار وغیرہ کے اول وآخر میں درود شریف پڑھنے کا کیا حکم ہے؟ اور اس میں کسی خاص تعداد کی پابندی ہے یا نہیں؟میں نے اول آخر میں درود شریف پڑھنے کی نیت کی تھی، لیکن پڑھا نہیں، اس کا کوئی کفارہ تو نہیں؟
1۔ سال گرہ منانا شرعاً ثابت نہیں ہے، بلکہ یہ اغیار (غیر مسلموں ) کی طرف سے آئی ہوئی ایک رسم ہے، جس میں عموماً طرح طرح کی خرافات شامل ہوتی ہیں، مثلاً: مخصوص لباس پہنا جاتا ہے، موم بتیاں لگاکر کیک کاٹا جاتا ہے، موسیقی اور مرد وزن کی مخلوط محفلیں ہوتی ہیں، تصویر کشی ہوتی ہے اور پھر ان میں غیر اقوام کی نقالی بھی ہوتی ہے، اور یہ سب امور ناجائز ہیں، لہذا مروجہ طریقہ پر سال گرہ منانا شرعاً جائز نہیں ہے۔
البتہ اگر اس طرح کے خرافات نہ ہوں اور نہ ہی کفار کی مشابہت مقصود ہو، بلکہ صرف گھر کے افراد اس مقصد کے لیے اس دن کو یاد رکھیں کہ عمر کی یاداشت رہے اور رب کے حضور اس بات کا شکرادا ہو کہ اللہ تعالیٰ نے عافیت وصحت کے ساتھ زندگی کا ایک سال مکمل فرمایا ہے اور اس کے لیے مذکورہ منکرات سے خالی کوئی تقریب رکھ لیں تو اس کی گنجائش ہوگی، نیز اس میں مبارک باد دینے کے لیے بھی غیروں کی مشابہت سے بچتے ہوئے صحت، سلامتی کے ساتھ عمر میں برکت اور دین پر ثابت قدمی وغیرہ کی دعائیں دینی چاہیے، مثلا ًاللہ تعالی آپ کی عمر میں برکت دے، وغیرہ، ایسی صورت میں شرکت اور مبارک باد دینے کی گنجائش ہوگی۔
قرآن مجیدمیں ہے:
"{وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ}." (سورۃ آل عمران، الآیة: 85)
ترجمہ:’’اور جو شخص اسلام کےسوا کسی اور دین کو تلاش کرے گا، پس اس سے ہرگز قبول نہ کیا جائےگا، اور وہ شخص آخرت میں نقصان اٹھانےوالوں میں سےہوگا۔‘‘
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:
"قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «من تشبه بقوم فهو منهم» " رواه أحمد، وأبو داود.
(من تشبه بقوم) : أي من شبه نفسه بالكفار مثلا في اللباس وغيره، أو بالفساق أو الفجار أو بأهل التصوف والصلحاء الأبرار. (فهو منهم) : أي في الإثم والخير. قال الطيبي: هذا عام في الخلق والخلق والشعار، ولما كان الشعار أظهر في التشبه ذكر في هذا الباب."
(كتاب اللباس، الفصل الثاني ،222/8، ط: مكتبة حنفية)
فتاوی رشیدیہ جدید مبوب میں ہے:
”بچوں کی سالگرہ منانا
(سوال) بچوں کی سالگرہ اور اس کی خوشی میں اطعام الطعام کرنا جائز ہے یا نہیں ۔
( جواب ) سالگرہ یادداشت عمر اطفال کے واسطے کچھ حرج نہیں معلوم ہوتا اور بعد سال کے کھانا بوجہ اللہ تعالیٰ کھلانا بھی درست ہے۔“
(حرمت وجواز کے مسائل، ص:567، ط: عالمی مجلس تحفظ اسلام)
کفایت المفتی میں ہے:
”سالگرہ منانے کی رسم
یاد گار سال ( عمر ) کیلئے ڈورے میں گرہ باندھنا، بکرے ذبح کرنا، مہمانداری کرنا ۔
(جواب) سالگرہ منانا کوئی شرعی تقریب نہیں ہے ایک حساب اور تاریخ کی یاد گار ہے اس کے لئے یہ تمام فضولیات محض عبث اور التزام مالا ملزم میں داخل ہیں ۔“
(کتاب الحظر والاباحۃ، ج:9، ص:84، ط: دار الاشاعت)
فتاوٰی رحیمیہ میں ہے:
’’سالگرہ منانے کاجوطریقہ رائج ہے (مثلاً کیک کاٹتے ہیں)یہ ضروری نہیں،بلکہ قابلِ ترک ہے،غیروں کے ساتھ تشبہ لازم آتاہے،البتہ اظہارِ خوشی اور خداکاشکر اداکرنامنع نہیں۔‘‘
(متفرقات حظرواباحۃ، 236/10، ط: دارالاشاعت)
2۔نیت کا تعلق دل سے ہوتا ہے، محض نیت کرنے سے کسی چیز کا کرنا یا نہ کرنا شرعاً لازم نہیں ہوتا، لہذا صورتِ مسئولہ جب آپ نے سال گرہ میں نہ جانے کی نیت کی اور پھر اپنی کے خلاف سال گرہ کی تقریب میں شرکت کرلی تو اس سے آپ پر کچھ بھی لازم نہیں ہوا۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"فركن النذر هو الصيغة الدالة عليه وهو قوله: " لله عز شأنه علي كذا، أو علي كذا، أو هذا هدي، أو صدقة، أو مالي صدقة، أو ما أملك صدقة، ونحو ذلك."
(كتاب النذر، ج:5، ص:18، ط: دار الكتب العلمية)
فتاوی شامی میں ہے:
"(وهو) ثلاثة أقسام (واجب النذر) بلسانه وبالشروع.
وفي الرد: (قوله بلسانه) فلا يكفي لإيجابه النية منح عن شمس الأئمة."
(كتاب الصوم، باب الاعتكاف، ج:2، ص:441، ط: سعيد)
3۔ دعا خواہ فرض نماز کے بعد ہو یا کسی اور موقع پر اس میں درود شریف پڑھنا فرض اور لازم نہیں، البتہ دعا میں درود شریف کا اہتمام کرنا چاہیے، یہ دعا کے آداب میں سے ہے، اس سے دعا میں تاثیر پیدا ہو جاتی ہے ، دعا قبولیت کے زیادہ قریب ہوجاتی ہے اور نزولِ رحمت کا سبب ہونے کے ساتھ ساتھ بہت سے فوائد پر بھی مشتمل ہے، بہت سی احادیثِ مبارکہ آپﷺ پر درود شریف پڑھنے والے کے لیے فضلیتیں آئی ہے، ذیل میں چند احادیثِ مبارکہ ذکر کی جاتی ہیں:
فضالة بن عبيد، يقول: سمع النبي صلى الله عليه وسلم رجلا يدعو في صلاته فلم يصل على النبي صلى الله عليه وسلم، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «عجل هذا»، ثم دعاه فقال له أو لغيره: «إذا صلى أحدكم فليبدأ بتحميد الله والثناء عليه، ثم ليصل على النبي صلى الله عليه وسلم، ثم ليدع بعد بما شاء»(سنن الترمذي، أبواب الدعوات، باب جامع الدعوات، ج:5، ص:517، ط: شركة مكتبة۔ مصر)
عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من صلى علي صلاة صلى الله عليه عشرا»
"عن عمر بن الخطاب، قال: «إن الدعاء موقوف بين السماء والأرض لا يصعد منه شيء، حتى تصلي على نبيك صلى الله عليه وسلم."(سنن الترمذي، أبواب الوتر، باب ماجاء في فضل الصلاة على النبي صلي الله عليه وسلم، ج:2، ص:356، ط: شركة مكتبة۔مصر)
وأخرج الطبراني في الأوسط عن علي بن أبي طالب قال: كل دعاء محجوب حتى يصلى على محمد صلى الله عليه وسلم وآل محمد.(مرعاة المفاتيح، كتاب الصلاة، باب الدعاء، الفصل الأول، ج:3، ص:291، ط: إدارة البحوث العلمية-الهند)
اس طرح کی احادیثِ مبارکہ کا تجزیہ کرتے ہوئےعلمائے کرام نے دعا کے آداب میں درود شریف کے اہتمام کرنے کا بھی لکھا ہے، چناں چہ مولانا منظور نعمانی صاحبؒ ”معارف الحدیث“ میں لکھتے ہیں:
”وہ حدیث ” آداب دعا کے ذیل میں۔۔۔ گزر چکی ہے۔ جس میں ہدایت فرمائی گئی ہے کہ دُعا کرنے والے کو چاہئے کہ پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کرے اور رسول اللہ ﷺ پر درود بھیجے اس کے بعد اللہ تعالی کے حضور میں اپنی حاجت عرض کرے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد سے معلوم ہوا کہ دعا کے بعد بھی رسول اللہ ﷺ پر صلوۃ بھیجنی چاہئے وہ دعا کی قبولیت کا خاص وسیلہ ہے۔ ” حسن حسین میں شیخ ابو سلیمان دارائی سے نقل کیا گیا ہے انہوں نے فرمایا کہ درود شریف (جو رسول اللہ ﷺ کے حق میں ایک اعلیٰ واشرف دعا ہے ) وہ تو اللہ تعالی ضرور ہی قبول فرماتا ہے، پھر جب بندہ اپنی دعا سے پہلے بھی اللہ تعالیٰ سے حضور ﷺ کے حق میں دعا کرے اور اس کے بعد بھی دعا کرے تو اس کے کرم سے یہ بہت ہی بعید ہے کہ وہ اول و آخر کی دعائیں تو قبول کرلے اور درمیان کی اس بے چارے کی دعار د کر دے اس لئے پوری امید رکھنی چاہئے کہ جس دعا کے اول و آخر رسول اللہ ﷺ پر صلوٰۃ بھیجی جائے گی وہ ان شاء اللہ ضرور قبول ہو گی۔“(معارف الحدیث، ج:5، ص:237، ط: دار الاشاعت)
لہذا دعا کے اول و آخر میں درود شریف پڑھنا آدابِ دعا میں سے ہے، نیز اس میں کوئی مخصوص تعداد نہیں، احادیث مبارکہ میں مطلقاً دعا کی ابتدا میں درود شریف پڑھنے کا ذکر آیا ہے، البتہ عام حالات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر کثرت کے ساتھ درود شریف پڑھنا روایات میں مذکور ہے، باقی آپ نے درود شریف پڑھنے کی نیت کی اور پھر دعا میں درود شریف نہیں پڑھا تو اس سے کوئی کفارہ لازم نہ ہوگا۔
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144607102416
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن