میں ہر سال پہلے روزے کو زکات نکالتا ہوں ،ا گر اس سال رمضان سے ایک مہینے پہلے مال آیا تو اس پر بھی زکات ہو گی ، جو مال ابھی ہمارے پاس پہنچا نہ ہو تو کیا اس پر زکات ہو گی ؟
صورتِ مسئولہ میں سائل یکم رمضان کو زکوۃ نکلتا ہے تو یکم رمضان سے ایک دن پہلے بھی مال آگیا تو اس کے لیے الگ سال کاحساب نہیں کیا جائے گا ،بلکہ پرانے مال کے تابع ہو کر اس پر بھی زکوۃ ادا کی جائے گی ۔
اور سائل کا یہ کہنا کہ جو مال ہمارے پاس مال پہنچا نہ ہو تو اس سے مقصود سائل کا یہ ہو کہ مال کی پیمنٹ کر دی ہے اور مال ابھی تک پہنچا نہیں زکوۃ آئے گی یانہیں ؟ تو ا س پر بھی زکوۃ آئے گی، کیوں کہ ملکیت میں ہونا شرط ہے، مال کا ہاتھ میں ہونا شرط نہیں ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"و من كان له نصاب فاستفاد في أثناء الحول مالًا من جنسه ضمّه إلی ماله و زکّاه سواء کان المستفاد من نمائه أولا و بأي وجه استفاد ضمّه سواء كان بمیراث أو هبة أو غیر ذلك."
(كتاب الزكوة، الباب الأول، ج:1، ص:175، ط: دارالفکر)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ومنها الملك التام وهو ما اجتمع فيه الملك واليد وأما إذا وجد الملك دون اليد كالصداق قبل القبض أو وجد اليد دون الملك كملك المكاتب والمديون لا تجب فيه الزكاة كذا في السراج الوهاج وأما المبيع قبل القبض فقيل لا يكون نصابا والصحيح أنه يكون نصابا كذا في محيط السرخسي."
(کتاب الزکوۃ، الباب الأول، ج:۱، ص:۱۷۲ ط:دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144409100584
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن