بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

سلام کہلاوانے یا بھجوانے کا حکم


سوال

بہت سے لوگ فیملی میں یا باہر کے لوگ کہیں آتے جاتے بعض مرتبہ یہ کہہ دیتے ہیں کہ فلانے کو میرا سلام اور پیارکہنا وغیرہ وغیرہ  اور اگر ہم بھولے سے نہیں پہنچا پاتے تو کیا گناہ ہوگا ؟اس پر ہماری کس طرح کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟ اور اگر اس وقت ہم کہہ دیں کہ اگر یاد رہا تو ضرور پہنچائیں گے سلام ، تو کیا اس کہنے سے ذمہ داری پوری ہو جائے گی؟

جواب

اگر کسی شخص نے دوسرے سے کہا کہ فلاں کو میرا سلام کہہ دینا یا فلاں جگہ سب کو میرا سلام کہہ دینا اور اس شخص نے کہا ٹھیک ہے میں سلام کہہ دوں گا تو ایسی صورت میں اس پر سلام کا پہنچانا واجب ہوگا، کیوں  کہ اس ذمہ داری کو قبول کرنے بعد یہ سلام امانت بن گیا، جس کا پہنچانا واجب ہے،اور جس کو سلام پہنچانے کا کہا گیا تھا اس سے ملاقات کے باوجود اگر سلام نہ کہا تو گناہ گار ہوگا،البتہ اگر کوشش کے باوجود ملاقات نہیں ہوئی تو اس پر کوئی گناہ نہیں ، اور اگر زبان سے یہ ذمہ داری قبول نہیں کی تھی تو پھر اس سلام کا پہنچانا واجب نہیں، لہٰذا اس صورت میں قصداً بھی سلام کہنا چھوڑ دیا تو کوئی گناہ نہیں ہوگا، لیکن پہنچا دے تو احسان ہوگا۔

مذکورہ صورت میں چوں کہ غفلت، سہو یا کسی اور مجبوری کی وجہ سے سلام پہنچانا مشکل ہوجاتا ہے، اس لیے مناسب ہے کہ  سلام بھیجنے کے معاملے میں سوال میں مذکور طریقہ اپنائے، یعنی کہنے والا یوں کہے : میرا سلام کہہ دینا "اگر یاد رہے" یا "اگر ممکن ہو" ، "بشرطِ سہولت" اگر یہ شخص نہ کہہ سکے تو دوسرا شخص ہی یہ کہہ دے کہ "ان شاء اللہ اگر یاد رہا  یا ممکن ہواتو عرض کردوں گا"، اس صورت میں سلام کا پہنچانا واجب نہ ہوگا۔

البتہ ـ     ’پیار کہنا ‘   جیسے الفاظ سے اس شخص تک پیغام پہنچانا واجب نہیں۔

قرآن کریم میں ہے:

" وَاِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّۃٍ فَحَیُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْہَا اَوْ رُدُّوْہَا اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ حَسِیْبًا۔ (سورۃ النساء : ۸۶)"

"ترجمہ:اور جب تمہیں کوئی شخص سلام کرے تو تم اسے اس سے بھی بہتر طریقے پر سلام کرو، یا (کم از کم) انہی الفاظ میں اس کا جواب دے دو، بےشک اللہ ہر چیز کا حساب رکھنے والا ہے۔"

حدیث شریف میں  ہے:

"حدثنا أبو نعيم، حدثنا زكرياء، قال سمعت عامرا، يقول حدثني أبو سلمة بن عبد الرحمن، أن عائشة  رضى الله عنها  حدثته أن النبي صلى الله عليه وسلم قال لها ‏"‏ إن جبريل يقرئك السلام ‏"‏‏.‏ قالت وعليه السلام ورحمة الله‏.‏"

(صحیح البخاري ، ج: 4،  رقم الحدیث: 6253، ص:2775، باب: إذا قال فلان یقرئک السلام،ط: المکتبة البشرٰی)

"حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا إسماعيل، عن غالب، قال إنا لجلوس بباب الحسن إذ جاء رجل فقال حدثني أبي عن جدي قال بعثني أبي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال ائته فأقرئه السلام ‏.‏ قال فأتيته فقلت إن أبي يقرئك السلام ‏.‏ فقال ‏ "‏ عليك وعلى أبيك السلام ."

(سنن ابي داود، ج: 2، ص: 369، باب: في الرجل یقول فلان یقرئک السلام، رقم الحدیث: 5231، ط: مکتبہ رحمانیہ)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإذا أمر رجلا أن يقرأ سلامه على فلان يجب عليه ذلك، كذا في الغياثية."

(الفتاوی الھندیة، ج: 5، ص: 403، کتاب الکراھیة، باب:  السلام وتشمیت العاطس، مکتبہ: دار الکتب العلمیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509102092

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں