بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

سلام کے متعلق چند مسائل


سوال

۱- سلام کرنا سنت ہے اور اس کا جواب دینا واجب ہے۔ اگر کوئی شخص سنت ادا نہیں کرتے تو گنہگار نہیں ہوتا ہے، مگر اگر واجب کا تارک ہوتا ہے تو گنہگار ہوتا ہے۔ کسی دینی ادارے میں ایک شخص آتے جاتے سامنے سے آنے والے مسلمان بھائیوں کا سامنا ہونے پر سلام اس وجہ سے نہ کرے کہ میرے سلام کرنے کی وجہ سے سامنے والے پر واجب ادا کرنا ضروری ہوجائے گا تو اس نظریے کی وجہ سے وہ سلام کرنے میں کنجوسی کرے تو ایسا کرنا صحیح ہے؟

۲- دوسری بات یہ ہے کہ ہم دفتر میں کام کرتے ہیں تو کسی مسلمان بھائی کے پاس کسی کام سے جاتے ہیں یا کوئی ضروری بات کرنی ہوتی ہے تو کیا ایسے موقع پر سلام کرنے سے بات کی ابتدا کرنی چاہیے یا ایسے ہی بغیر سلام کے اپنی بات شروع کردینی چاہیے؟

۳- تیسری بات یہ ہے کہ اگر کوئی بھائی سلام میں پہل کرنے کا اہتمام نہیں کرتا، وہ کسی کام سے ہمارے پاس آتا ہے اور بغیر سلام ہی کے اپنی بات شروع کردیتا ہے تو کیا ہم کو سلام میں پہل کرنی چاہیے؟ اس کے بعد اس کی بات سننی چاہیے۔ اگر اس نے بات کرنا شروع کردی ہے تو ہمارے سلام کرنے سے اس پر سلام کا جواب واجب ہوجائے گا تو وہ اپنی بات روک کر سلام کا جواب دے گا اور پھر دوبارہ اپنی بات شروع کرے گا۔ ایسے موقع پر کیا طریقہ کار اختیار کرنا چاہیے جو  سنت ہو؟ 

برائے مہربانی شریعت کی روشنی میں درج بالا تینوں مواقع کے جوابات عنایت فرمادیجیے ، جبکہ اسلاف سے سنا ہے کہ ایک آڑ کے بعد  بھی سلام  کرنا ہے۔ حدیث پاک بھی سنی ہے ، جس کا مفہوم ہے کہ سلام کو عام کرو،  البتہ جہاں سلام کرنے کی ممانعت ہے، اس کا لحاظ رکھا جائے۔

جواب

حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ ہم لوگ زمانہ جاہلیت میں (ملاقات کے وقت) یوں کہا کرتے تھے، ”انعم الله بک عیناً“اللہ تیری آنکھیں ٹھنڈی رکھے،اور”انعم صباحا“تو صبح کے وقت میں اچھے حال میں رہے ۔ اس کے بعد جب اسلام آیا،تو ہمیں اس سے منع کر دیا گیا۔(سنن ابی داؤد،کتاب الادب،باب فی الرجل انعم اللہ بک عینا،رقم الحدیث:5227)
اس حدیث سے معلوم ہواکہ اسلام کے بتائے ہوئے طریقے کے علاوہ ملاقات کے وقت دوسروں کے طریقے اختیار کرنا اور ان کے رواج کے مطابق کلمات کہنا ممنوع ہے، بلکہ مسلمانوں کے لیے ملاقات کی ابتدا کے وقت سلام کرنا ہی سنت ہے۔ 

ایک اور روایت  ( جس کی طرف سوال میں اشارہ ہے) میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

”إذا لقي أحدكم أخاه فلیسلم علیه،فإن حالت بینھما شجرة أو جدار أو حجر ثم لقیه فلیسلم علیه أبضا“. (سنن أبي داؤد ،کتاب الأدب،باب في الرجل یفارق الرجل، ثم یلقاہ أیسلم علیه؟رقم الحدیث:٥٢٠٠)
یعنی جب تم میں سے کوئی  اپنے  کسی (مسلمان) بھائی سے ملاقات کرے تو اسے سلام کرے، پھر اگران دونوں کے  درمیان کوئی درخت یا دیوار یا پتھر حائل ہوجائے اور  دوبارہ ملاقات ہو تو  دوبارہ  اسے سلام کرے۔ 

اس تمہید کے بعد آپ کے سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں: 

۱- اس بنا پر سلام ترک کرنا مناسب نہیں کہ  اگلا جواب دے گا یا نہیں معلوم نہیں، اگلے کا عمل  کا جواب دہ وہ خود ہے، ہمیں اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے، البتہ ادب یہ ہے کہ اگر کوئی  کسی کام میں مصروف ہو تو اسے سلام نہ کرنا چاہیے۔ 

۲، ۳- نبی  کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”السلام قبل الکلام“․یعنی بات چیت سے پہلے سلام ہے۔(جامع الترمذي، أبواب الاستیذان ،باب ماجاء في السلام قبل الکلام، رقم الحدیث:٢٦٩٩)

لہذا ادب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص  کسی سے ملاقات کرے، یا کسی مجلس میں جائے  تو پہلے سلام کرے،اس کے بعد گفتگو اور بات چیت شروع کرے، سلام سے پہلے بات چیت صحیح نہیں ہے۔ اور اگر کوئی  سلام سے پہلے بات کرے،تو اس کو جواب نہ دے۔ (الدر مع الرد ، کتاب الحظر والا باحة، فصل في البیع، 5/293، رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144202200407

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں