بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1446ھ 21 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

صلاۃ الخوف (خوف کے وقت کی نماز) کا طریقہ


سوال

صلاۃ الخوف کا طریقہ کیا ہے؟

جواب

صلاۃ الخوف کا طریقہ یہ ہے کہ  امام اپنے لشکر کو دو حصوں میں تقسیم کرے، پھر لشکر کا ایک حصہ امام کی اقتدا میں ہو جبکہ دوسرا حصہ دشمنوں کے سامنے۔ پہلا حصہ  امام کی اقتدا میں دو رکعت والی نماز ہونے کی صورت میں پہلی رکعت پڑھے (یعنی سجدے تک) اور دو سے زیادہ رکعت والی نماز ہونے کی صورت میں شروع کی دو رکعتیں پڑھے (یعنی قعدۂ اولی کے تشہد تک) ؛ پھر یہ پہلا حصہ دشمن کے سامنے چلا جائے اور دوسرا حصہ امام کے پیچھے مسبوق بن کر اقتدا کرے۔ دوسرا حصہ امام کی نماز مکمل ہونے پر امام کے ساتھ سلام نہ پھیرے بلکہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد دشمن کے سامنے چلا جائے اور پہلا حصہ نماز کی جگہ لوٹ آئے اور لاحق کی حیثیت سے نماز مکمل کرے (یعنی بقیہ نماز میں قراءت نہ کرے)۔ پہلے حصے کے نماز مکمل کرنے کے بعد یہ حصہ دشمن کے سامنے جائے اور دوسرا حصہ نماز کی جگہ آکر مسبوق کی حیثیت سے نماز مکمل کرے۔

واضح ہو کہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد دوسرا حصہ اپنی نماز مکمل کرنے کے بعد دشمنوں کے سامنے جائے اور پھر پہلا حصہ نماز کی جگہ آنے کے بجائے جہاں تھے، وہیں نماز مکمل کرلیں، تو  یہ صورت بھی جائز ہے، البتہ افضل صورت وہ ہے جو اوپر تحریر کی گئی۔

نیز یہ بھی واضح ہو کہ صلاۃ الخوف اس وقت پڑھی جائے گی جب تمام لشکر ایک ہی امام کی اقتدا میں نماز پڑھنا چاہے اور اگر لشکر کا ہر حصے الگ الگ امام کی اقتدا میں اپنی مکمل نماز (جو عام نماز ہو، صلاۃ الخوف کے طریقے پر نہ ہو) پڑھ لے تو یہ زیادہ افضل ہے۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(فيجعل الإمام طائفة بإزاء العدو) إرهابا له (ويصلي بأخرى ركعة في الثنائي) ومنه الجمعة والعيد (وركعتين في غيره) لزوما (وذهبت إليه وجاءت الأخرى فصلى بهم ما بقي وسلم وحده وذهبت إليه) ندبا (وجاءت الطائفة الأولى وأتموا صلاتهم بلا قراءة) لأنهم لاحقون (وسلموا ثم جاءت الطائفة الأخرى وأتموا صلاتهم بقراءة) لأنهم مسبوقون هذا وإن تنازعوا في الصلاة خلف واحد وإلا فالأفضل أن يصلي بكل طائفة إمام."

و فیہ : 

"(قوله فيجعل الإمام إلخ) اعلم أنه ورد في صلاة الخوف روايات كثيرة وأصحها ست عشرة رواية. واختلف العلماء في كيفيتها، وفي المستصفى أن كل ذلك جائز، والكلام في الأولى والأقرب من ظاهر القرآن هذه الكيفية إمداد وفي ط عن المجتبى ولا فرق بين ما إذا كان العدو في جهة القبلة أو لا على المعتمد (قوله ومنه الجمعة والعيد) وكذا صلاة المسافر وأشار بالعيد إلى أنها لا تقتصر على الفرائض ط (قوله وركعتين في غيره) أي ولو ثلاثيا كالمغرب حتى لو عكس فسدت كما في النهر وإليه أشار بقوله لزوما ط وتوجيهه في الإمداد وغيره (قوله وذهبت) أي هذه الطائفة بعد السجدة الثانية في الثنائي وبعد التشهد في غيره، وقوله: إليه أي إلى نحو العدو ووقفت بإزائه ولو مستدبرة القبلة قهستاني، والواجب أن يذهبوا مشاة فلو ركبوا بطلت لأنه عمل كثير جوهرة وسيأتي (قوله ندبا) فلو أتموا صلاتهم في مكانهم صحت ط (قوله وجاءت الطائفة الأولى) مجيئها ليس متعينا، حتى لو أتمت مكانها ووقفت الطائفة الذاهبة بإزاء العدو صح، وهل الأفضل الإتمام في مكان الصلاة أو في محل الوقوف تقليلا للمشي ينبغي أن يجري فيه الخلاف فيمن سبقه الحدث ومشى في الكافي على أن العود أفضل أفاده أبو السعود (قوله لأنهم لاحقون) ولهذا لو كانت معهم امرأة تفسد صلاة من حاذته منهم بخلاف الطائفة المسبوقة كما في البحر وعم كلامه المقيم خلف المسافر حتى يقضي ثلاثا بلا قراءة إن كان من الطائفة الأولى وبقراءة إن كان من الثانية، والمسبوق إن أدرك ركعة من الشفع الأول فهو من أهل الأولى، وإلا فمن الثانية نهر (قوله: وهذا) أي ما ذكر من الصلاة على هذا الوجه إنما يحتاج إليه لو لم يريدوا إلا إماما واحدا، وكذا لو كان الوقت قد ضاق عن صلاة إمامين كما في الجوهرة.قلت: ويمكن أن يكون هذا مراد صاحب مجمع الأنهر فيما تقدم فتأمل (قوله: فالأفضل إلخ) أي فيصلي الإمام بطائفة ويسلمون ويذهبون إلى جهة العدو ثم تأتي الطائفة الأخرى فيأمر رجلا ليصلي بهم. [تتمة]."

(۲ ؍ ۱۸۷، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الخوف، ط : سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309101358

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں