بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1446ھ 21 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

سر یاناک کا خون حلق میں چلے جانے سے روزہ کا حکم/ نذرمنعقد ہونے کے لئے الفاظ کا تلفظ ضروری ہے/ شامی کی ایک عبارت کا مطلب


سوال

1-  سر یاناک کی طرف سے  بلغم کی طرح جما ہوا  خون حلق میں چلا  گیا، تو کیا روزہ ٹوٹ جاتا ہے ؟

2- نیند کی  حالت میں سریا ناک سے خون بہہ کر حلق میں جمع ہوگیا ہو، اور  خون کا حلق کے اندر  جانا یاد نہ ہو تو کیا اس سےروزہ ٹوٹ جاتا ہے؟

3- ایک شخص نے اس طرح کہا ہےکہ ”اگر میں نے پان کھایا تو  تین روزے رکھوں گا“(دل میں یہ تھا کہ ہر مرتبہ پان کھانے پر تین روزے لازم ہوتے ہیں ) پھر کئی مرتبہ اس شخص نےپان کھایا ،اس کے بعد کئی مرتبہ تین تین روزے بھی رکھے  ، چند دن گزرنے کے بعد پھر  اس نےچار مرتبہ پان کھایا ،اب اس  شخص کے لیے اتنے روزے رکھنا بہت مشکل ہے، لیکن اس نے  تمام لازم شدہ روزوں میں سے  صرف تین روزے  رکھنے کا ارادہ کیا ،اس نیت سے کہ ان سب میں تداخل  ہوجائے گاتو پوچھنایہ ہے کہ کیا مذکورہ صورت میں تداخل جائز ہے ؟ 

وفی الشامی:"وفي البغية: ‌كفارات ‌الأيمان إذا كثرت تداخلت "   کیا یہ حکم صرف قسم کے کفاروں کے ساتھ خاص ہے مذکور بالاصورت اور اس کی امثال میں بھی جب سبب ایک ہو تو  تداخل جائز ہے۔

جواب

1:  واضح رہے کہ فقہاء کرام نے کتب فقہ میں یہ قاعدہ  ذکر کیا ہے کہ جو چیز  نہ مقصود بالاکل( بطور غذا کے) استعمال  ہوتی  ہو  اور  نہ ہی اس سے احتراز یعنی بچنا  ممکن  ہو ،توایسی چیز اگر  روزہ دار کے پیٹ  تک پہنچ جائے تواس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا، جیسے  مکھی  کا حلق سے نیچے اتر کر پیٹ میں جانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ، اسی   طرح انسانی جسم کے اندر ہی اندر   کسی   جگہ سے خون بغیر اختیار کے حلق کے اندر چلا جائے اور اس    سے احتراز ممکن بھی نہ ہو تو اس سے روز ہ نہیں ٹوٹتا۔

ب: مسوڑھوں یا دانتوں کا خون (غالب ، مساوی )مغلوب ہونے کی صورت میں حلق میں ذائقہ محسوس ہونے کی صورت میں    روزہ ٹوٹ جائے  گا،  اسی کے ذیل میں علامہ شامی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں :"قلت: ومن هذا يعلم حكم من قلع ضرسه في رمضان ودخل الدم إلى جوفه في النهار ولو نائما فيجب عليه القضاء إلا أن يفرق بعدم إمكان التحرز عنه فيكون كالقيء الذي عاد بنفسه فليراجع."علامہ شامی  رحمہ اللہ نے بھی عدم امکان تحرز کی صورت میں اس خون کو اس قے پر قیاس کیا ہے جو خود بخود حلق میں چلا جائے،  تو جس طرح روزہ کی حالت میں خود بخود قے واپس جانے سے روزہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا،بالکل  اسی طرح ایسا خون جس سے احتراز ممکن نہ ہو ،اس سے بھی روزہ نہیں ٹوٹے گا۔

ج: دانتوں ، مسوڑھوں ، ناک کےخون  سے چوں کہ عام حالت میں احتراز ممکن ہے ؛اس لیے یہ خون (غالب ، مساوی )مغلوب ہونے کی صورت میں حلق میں ذائقہ محسوس ہونے کی صورت میں جانے سے روزہ ٹوٹ جائے گا  ، البتہ عذر یا نیند کی حالت  میں خون بلااختیار حلق میں چلاجائے تو عدم فساد قول کی گنجائش  ہے۔(احسن الفتاوی  )

مندرجہ بالا  مقدمات کی روشنی میں:

1-2صورتِ مسئولہ میں چوں کہ   سر کی طرف  سے حلق  میں خون چلےجانے سے   اختیار اور احتراز  دونوں  ممکن نہیں ہے ؛ اس لیے سر کی طرف  خون  حلق کے نیچے سے اتر کر پیٹ میں جانے سے روزہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، اس میں   حالت نیند وبیدار ی  دونوں برابر ہے، البتہ ناک کی طرف سے جو خون  حلق میں چلا جائے  ،اس میں غالب، مغلوب، مساوی کی تفصیل کے مطابق روزہ ٹوٹ جائے گا  ، البتہ  کسی  عذر  یا نیند  کی حالت میں غیر اختیاری طور پر   خون  اندر چلا جائے تب تور  وزہ نہیں ٹوٹے گا، تاہم  بعد میں  احتیاطاً اس  روزہ کی قضاء  کرنی چاہیے۔

بلغم کی طرح جما ہوا خون حلق میں چلا گیا، اور حلق سے نیچے اتر کر پیٹ میں  نہیں گیا  تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا، اور اگر حلق  سے نیچے اتر کرپیٹ  میں چلا گیا تو   سر اور ناک کے خون  میں مذکورہ  بالا تفصیل   کے مطابق حکم  لگے گا  ۔

3- صورتِ مسئولہ میں  مذکورہ شخص نے   پان کھانے کو تین روزے رکھنے پر معلق کیا  تھا، جس کو فقہی اصطلاح میں نذر معلق کہا جاتاہے، اور  نذر منعقد ہونے کے لیے نذر کے الفاظ کا زبان سے ادا کرنا ضروری ہے ،صرف دل میں  نیت کرنے یا کوئی  خیال آنےسے شرعاً نذر منعقد نہیں ہوتی،لہٰذا   مذکورہ شخص کے دل میں یہ    خیال آنا”  کہ ہر مرتبہ پان کھانے پر تین روزے  لازم ہوتے ہیں“ سے   ہر مرتبہ   پان کھانے سے تین روزے شرعاً لازم نہیں ہوں گے، بلکہ پان کھانے کے  بعد ایک دفعہ تین روزے رکھنے سے نذر  پوری ہوجائے گیاور دوبارہ پان کھانے سے اس پر روزے لازم نہیں ہوں گے۔

"  ‌كفارات ‌الأيمان إذا كثرت تداخلت " کا مطلب یہ ہے کہ  ایک کام کے کرنے یا نہ کرنے سے متعلق متعدد قسمیں کھانے کے بعد قسم توڑنے کی صورت میں تو ایک ہی کفارہ کافی ہوجاتا ہے، لیکن اگر متعدد قسمیں متعدد کاموں کے کرنے یا نہ کرنے کی کھالے اور پھر ان قسموں کو توڑ دیں تو ہر قسم توڑنے کے بدلہ میں ایک کفارہ ادا کرنا لازم ہوگا۔ متعدد کاموں کی قسموں کے کفارہ میں تداخل نہ ہو گا (یعنی ایک کفارے میں تمام توڑی ہوئی قسموں کے کفاروں کی نیت کرنا درست نہیں)، بلکہ ہر قسم کے لیےالگ الگ کفارہ ادا کرنا لازم ہوگا۔

الفتاوى الهنديةمیں ہے:

‌وما ‌ليس ‌بمقصود بالأكل، ولا يمكن الاحتراز عنه كالذباب إذا وصل إلى جوف الصائم لم يفطره كذا في إيضاح الكرماني ولو أخذ الذباب، وأكله يجب عليه القضاء دون الكفارة كذا في شرح الطحاوي."

(كتاب الصوم، الباب الرابع فيما يفسد وما لا يفسد، النوع الأول ما يوجب القضاء دون الكفارة، ج:1، ص:203، ط:دار الفكر بيروت)

الدر المختار  میں ہے:

"(أو خرج الدم من بين أسنانه ‌ودخل ‌حلقه) يعني ولم يصل إلى جوفه أما إذا وصل فإن غلب الدم أو تساويا فسد وإلا لا إلا إذا وجد طعمه بزازية واستحسنه المصنف وهو ما عليه الأكثر وسيجيء.

قال في الرد:

  (قوله: يعني ولم يصل إلى جوفه) ظاهر إطلاق المتن أنه لا يفطر وإن كان الدم غالبا على الريق وصححه في الوجيز كما في السراج وقال: ووجهه أنه لا يمكن الاحتراز عنه عادة فصار بمنزلة ما بين أسنانه وما يبقى من أثر المضمضة كذا في إيضاح الصيرفي. اهـ ولما كان هذا القول خلاف ما عليه الأكثر من التفصيل حاول الشارح تبعا للمصنف في شرحه بحمل كلام المتن على ما إذا لم يصل إلى جوفه؛ لئلا يخالف ما عليه الأكثر. قلت: ومن هذا يعلم حكم من قلع ضرسه في رمضان ودخل الدم إلى جوفه في النهار ولو نائما فيجب عليه القضاء إلا أن يفرق بعدم إمكان التحرز عنه فيكون كالقيء الذي عاد بنفسه فليراجع (قوله: واستحسنه المصنف) أي تبعا لشرح الوهبانية حيث قال فيه وفي البزازية قيد عدم الفساد في صورة غلبة البصاق بما إذا لم يجد طعمه وهو حسن. اهـ. ."

(كتاب الصوم،  ‌‌باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده، ج:3، ص:422، ط:رشیدیه)

النهر الفائق  میں ہے:

"ولو خرج دم من أسنانه فدخل حلقة فإن غلب الريق أفطره وكذا إن ساواه استحسانًا وإلا لا هذا ما عليه أكثر المشايخ، وفي (السراج) عن (الوجيز) لو كان الدم غالبًا لا يفطر وهو الصحيح إلحاقًا له بما بين الأسنان بجامع عدم الاحتراز عنه."

((کتاب الصوم، باب موجب الإفساد في الصوم، ج:2، ص:18، ط:دار الكتب العلمية)

مجمع الأنهر  میں ہے:

" وفي الخانية لو دخل دمعه أو عرق جبهته ‌أو ‌دم ‌رعافه ‌حلقه فسد صومه."

(کتاب الصوم، باب موجب الفساد، ج:1، ص:245، ط:دار إحياء التراث العربي، بيروت)

احسن الفتاوی میں ہے:

مسوڑھوں سے خون بلا اختیار پیٹ میں جانے کا حکم :

سوال، میرے مسوڑھوں سے خون نکلتا ہے، آجکل روزوں میں دو پہر کے بعد خون بہت جاری رہتا ہے، یہ کیفیت بالخصوص سونے کی حالت میں ہوتی ہے، خون تھوک پر غالب رہتا ہے ، جاگنے کی صورت میں تو احتیاط برتتا ہوں، لیکن سونے کی حالت میں غفلت میں تھوک حلق کے نیچے اتر جاتا ہے، اب تک رمضان میں ایسا دو مرتبہ ہوا ہے، میرا روزہ ہوا یا قضار روزہ رکھنا ہوگا، آجکل نیند رات کو نہیں ہوتی ، دن کو اگر نہ سوؤں تو رات کی عبادت میں خلل ہوگا اور نوکر ی کرنا بھی محال ہو گا، میرے لئے کیا حکم ہے؟ بینوا توجروا

الجواب باسم ملهم الصواب

خون اگر صرف حلق میں گیا مگر پیٹ میں نہیں پہنچا تو روزہ نہیں ٹوٹا، اور اگر خون مغلوب ہو یعنی تھوک کا رنگ سرخ کی بجائے زرد ہو تو پیٹ میں جانے سے بھی روزہ نہیں ٹوٹتا البته خون مغلوب ہونے کے باوجود حلق میں اس کا مزہ محسوس ہو تو پیٹ میں جانے سے روزہ ٹوٹ جائے گی، اسی طرح خون غالب ہو یعنی تھوک سرخ ہو تو پیٹ میں جانے سے روزہ جاتا رہے گا اگر چہ مزہ محسوس نہ ہو ، جن صورتوں میں روزہ ٹوٹ جاتا ہے اُن میں اگر سونے کی حالت میں یا کسی اور عذرسے خون بلا اختیار پیٹ میں اتر جاتا ہو تو عدم فساد کے قول کی گنجائش معلوم ہوتی ہے، کذا فی الشامية معہذا  بہتر یہ ہے کہ اگر مستقبل قریب میں صحت متوقع  ہو ہو تو روزہ نہ  رکھیں، بعد میں قضاء کریں، اور اگر روزہ کی حالت میں غیر اختیاری طور پر خون پیٹ میں چلا گیا تو صحت کے بعد احتیاطاً اس روزہ کی قضاء کریں، فقط والله تعالى أعلم.

(کتاب الصوم، ج:4، ص:448، ط:سعید)

وفیه أيضا:

"خون اگر صرف حلق میں گیا مگر پیٹ میں نہیں پہنچا، تو روزہ نہیں ٹوٹا، اور اگر خون مغلوب ہو، یعنی تھوک کا رنگ سُرخ کے بجائے رزد ہوتو پیٹ میں جانے سے بھی روزہ نہیں ٹوٹتا، البتہ خون مغلوب ہونے کے باوجود حلق میں اس کا مزہ محسوس ہوتو پیٹ میں جانے سے روزہ ٹوٹ جائے گا،اسی طرح خون غالب ہو یعنی تھوک سرخ ہوتو پیٹ میں جانے سے روزہ جاتا رہے گا اگر چہ مزہ محسوس نہ ہو۔"

(کتاب الصوم، ج:4، ص:447، ط:سعید)

الفقه على المذاهب الأربعة میں ہے:

"ولا يشترط للنذر صيغة خاصة، ‌فيلزم ‌بكل ‌لفظ دال على الالتزام ولو لم يذكر فيه لفظ النذر."

(كتاب اليمين، مباحث النذر، أقسام النذر، ج:2، ص:131، ط: دارالكتب العلمية)

 حاشیة الشرنبلالي علی الدررمیں ہے:

"ولو نذر بقلبه لا يلزمه بخلاف النية؛ لأن النذر عمل اللسان."

(کتاب الصوم، باب الاعتكاف، أقل الاعتكاف، ج:1، ص:212، ط:دار إحياء الكتب العربية)

آپ کے مسائل اور اُن کا حل میں ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:

صرف خیال آنے سے منت لازم نہیں ہوتی

” صرف کسی بات کا خیال آنے سے منت نہیں ہوتی بلکه زبان سے ادا کرنے کے ساتھ ہوتی ہے ۔“

(منت وصدقہ، ج:5، ص:195، ط:لدھیانوی)

الدر المختار  میں ہے

"ومن نذر نذرا مطلقا أو معلقا بشرط وكان من جنسه واجب) أي فرض كما سيصرح به تبعا للبحر والدرر (وهو عبادة مقصودة) خرج الوضوء وتكفين الميت (ووجد الشرط) المعلق به (لزم الناذر) لحديث «من نذر وسمى فعليه الوفاء بما سمى» (كصوم وصلاة وصدقة)

قال في الرد:

قوله لزم الناذر) أي لزمه الوفاء به والمراد أنه يلزمه الوفاء بأصل القربة التي التزمها لا بكل وصف التزمه لأنه لو عين درهما أو فقيرا أو مكانا للتصدق أو للصلاة فالتعيين ليس بلازم بحر، وتحقيقه في الفتح."

(كتاب الأيمان، مطلب:في أحکام النذر، ج:5، ص:537، ط:رشیدیه)

کفایت المفتی میں  ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں :

ایک کام پر چند قسموں سے ایک ہی کفارہ کافی ہوگا

”ایک امر پر چند قسموں سے ایک ہی کفارہ کافی ہوجاتا ہے۔وفي البغية: كفارات الأيمان إذا كثرت تداخلت، ويخرج بالكفارة الواحدة عن عهدة الجميع(کذا فی الشامی ص۵۶)."

 (کتاب الیمین و النذر،  2، ص: 245 ،  ط: دار الاشاعت)

وفيه أيضا:

"وفي البحر عن الخلاصة والتجريد: وتتعدد الكفارة لتعدد اليمين، والمجلس والمجالس سواء؛ ولو قال: عنيت بالثاني الأول ففي حلفه بالله لايقبل، وبحجة أو عمرة يقبل".

قال في الرد:

"(قوله: وتتعدد الكفارة لتعدد اليمين) وفي البغية: كفارات الأيمان إذا كثرت تداخلت، ويخرج بالكفارة الواحدة عن عهدة الجميع. وقال شهاب الأئمة: هذا قول محمد. قال صاحب الأصل: هو المختار عندي. اهـ. مقدسي، ومثله في القهستاني عن المنية".

قال الرافعي:

"( قوله : قال صاحب الأصل هو المختار عندي إلخ) لايخفى أن كلاً من البغية و المنية للزاهدي، و معلوم أن ما انفرد به لايعول عليه، فلايعتمد على القول بالتداخل بل يعتمد على ما ذكره غيره من عدم التداخل حتى يوجد تصحيح لخلافه ممن يعتمد عليه في نقله، و مما يدل لتعددها ما ذكره الفتح أول الحدود: أن كفارة الإفطار المغلب فيها جهة العقوبة حتى تداخلت، و إن كفارة الأيمان المغلب فيها جهة العباد اهـ و في الهندية : إذا قال الرجل: و الله و الرحمن لاأفعل كذا كانا يمينين حتى إذا حنث كان عليه كفارتان في ظاهر الرواية اهـ، فعلم أن التعدد في ظاهر الرواية."

(کتاب الأيمان، مطلب:تتعدد الکفارۃ لتعدد الیمین، ج:5، ص:505، ط:رشیدیه)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144606101743

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں