ہماری مسجد میں پانی کی بہت قلت ہے ،مسجد کی مغربی جانب سرکاری پانی کی لائن ہے،جس میں مسجد کی لائن جڑی ہوئی ہے،یہ لائن احاطہ مسجد سے6 فٹ کے فاصلے پر ہے ،اس میں باقاعدہ پانی نہیں آتا،فی الوقت بورنگ موجود ہے، جس کا پانی نیچے اتر چکاہے ،قبل ازیں ایک کنواں بھی خشک ہوچکا ہے ،مسجد کے شمال میں موجود شاہراہ میں نیچے تک ایک لائن موجود ہے،وہاں تک پانی نہیں پہنچتا،البتہ اسی لائن میں شروع میں وافر مقدار میں پانی کے مقررہ ایام میں میسر ہوتاہے ،مسجد انتظامیہ نے تقریباًگیارہ سو فٹ دور اس لائن کی ابتدا میں مسجد کی لائن جوڑی ہے ،اس کے لیے روڈ کٹنگ کا چالان متعلقہ ادارہ کے ضابطہ کے تحت مسجد کےلیے بلامعاوضہ مقرر ہے، وہ مسجد انتظامیہ نے وصول کرلیاہے،جس کی نقل سوال نامہ کے ساتھ منسلک ہے،جب کہ لائن جوڑنے کا چالان بھی متعلقہ ادارے سے حسبِ ضابطہ ملنے کی قوی توقع ہے جس کی کوشش جاری ہے،اور ادارہ سے متعلق افراد نے ملنے کی یقین دہانی بھی کروائی ہے،واضح رہے کہ اس لائن کوجوڑنے میں قرب و جوار کے رہائشیوں کو اعتراض بھی ہے، اس بنیاد پر کہ انہیں پانی پورا میسر نہ ہوگا،اب سوال یہ ہے کہ ادارہ سے منظوری او ر اجازت نامہ مل جانے کے بعد پانی استعمال کرنا شرعاًدرست ہے یا نہیں ؟جب کہ یہ چالان اور منظوری بلا معاوضہ ہوگی،اور محلے والوں کا اعتراض استعمال کے لیے رکاوٹ تو نہ ہوگا؟ازراہ کرم قرآن وسنت کی روشنی میں رہنمائی فرمادیں۔
صورتِ مسئولہ میں اگر مسجد میں ضرورت کے مطابق پانی میسر نہیں، اور متعلقہ سرکاری ادارے مسجدکے شمال میں موجود پانی کی لائن سے مسجد کی لائن جوڑنے کی اجازت دے دیں تو ان کی اجازت کے بعد انتظامیہ کاایسا کرنا جائز ہوگا، بلا اجازت لائنیں جوڑنا درست نہیں، البتہ متعلقہ ادارےکی اجازت کے بعد قرب وجوار کے رہائشیوں کے اعتراض كے باوجود لائن جوڑنے میں کوئی حرج نہیں ہوگا،اور مسجد میں اس لائن کا پانی استعمال کرنا شرعاً درست ہوگا،البتہ مسجد انتظامیہ کو چاہیے کہ اجازت نامہ مل جانے کے بعد مذکورہ سرکاری لائن سے کنکشن لے کراسےبقدرِ ضرورت استعمال کریں۔
المبسوط للسرخسی میں ہے:
"وعن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال «المسلمون شركاء في ثلاث في الماء والكلإ والنار» وفي الروايات: الناس شركاء في ثلاث، وهذا أعم من الأول ففيه إثبات الشركة للناس كافة: المسلمين والكفار في هذه الأشياء الثلاثة، وهو كذلك، وتفسير هذه الشركة في المياه التي تجري في الأودية، والأنهار العظام كجيحون وسيحون، وفرات، ودجلة، ونيل فإن الانتفاع بها بمنزلة الانتفاع بالشمس، والهواء ويستوي في ذلك المسلمون، وغيرهم، وليس لأحد أن يمنع أحدا من ذلك، وهو بمنزلة الانتفاع بالطرق العامة من حيث التطرق فيها، ومرادهم من لفظة الشركة بين الناس بيان أصل الإباحة، والمساواة بين الناس في الانتفاع لا أنه مملوك لهم فالماء في هذه الأودية ليس بملك لأحد."
(كتاب الشرب ، ج : 23 ، ص : 164 ، ط : دار المعرفة)
فتاوی شامی میں ہے:
"قوله (المسلمون شركاء في ثلاث) أي شركة إباحة لا شركة ملك، فمن سبق إلى شيء من ذلك في وعاء أو غيره وأحرزه فهو أحق به وهو ملك له دون من سواه يجوز له تمليكه بجميع وجوه التمليك، وهو موروث عنه وتجوز فيه وصاياه، وإن أخذه أحد منه بغير إذنه ضمنه، وما لم يسبق إليه أحد فهو لجماعة المسلمين مباح ليس لأحد منع من أراد أخذه للشفة إتقاني عن الكرخي."
(كتاب إحياء الموات ، فصل الشرب ، 6 ، ص : 440 ، ط : دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601101214
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن