بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1446ھ 21 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

سرکاری جگہ پر قبضہ کرنے کا حکم


سوال

بعض مدارس والے اپنے اساتذہ یا عملے  سے مندرجہ ذیل عبارت پر دستخط کراتے ہیں، کسی  استاذ  یاعملے  کو جامعہ کی حدود میں منتظم  جامعہ مہتمم کےپاس کردہ نقشہ کے مطابق اپنے خرچہ پرمکان ،کمرہ یا دکان تعمیر کرنے کی اجازت کی صورت میں یہ گھر،دکان یاکمرہ  جامعہ ہی کی ملکیت ہوگا، اور تعمیر کا خرچہ  مدرسہ کے ساتھ تعاون تصور ہوگا ،جس کی باقاعدہ رسید کٹوائی جائے گی، اس پر چند سوالات ہیں :

1۔جو جگہ جامعہ کی ملکیت ہی نہیں، بلکہ باقا عدہ گورنمنٹ کی ملکیت ہے ،اس گورنمنٹ کی جگہ پر اگر کوئی شخص اپناذاتی پیسہ لگا کر کوئی کمرہ یاکوئی گھر بناتا ہے، تو کیا اس جگہ کے بارے  میں یہ کہنا یہ گھر یا کمرہ جامعہ ہی کی ملکیت تصور  ہوگا ؟

2۔وہ گھر  یا کمرہ جو کسی شخص نے اپنا ذاتی پیسہ خرچ کرکے گورنمنٹ کی جگہ پر بنایا ہے ،وہ واقعی جامعہ / ادارہ کی ملکیت شمار ہوسکتا ہے ؟یااس شخص کی ملکیت شمار ہوگا ،جس  نے اپنا ذاتی پیسہ لگا کر یہ گھر یا کمرہ تعمیر کیا ہے؟جگہ اگر چہ گورنمنٹ کی ہے ، اگر یہ بنانے والے کی ملکیت ہے،تو کیا وہ خالی اس مکان /کمرہ  کوبیچ سکتاہے؟نہ کہ زمین کو  کیوں کہ وہ زمین تو اس کی ملکیت ہی نہیں ۔

3۔جو جگہ سرے سے جامعہ /ادارے کی ہے ہی نہیں ،اورنہ وہ جگہ  وقف علی الجامعہ ہے ،بلکہ گورنمنٹ کی ہے ،کیا اس کے بارہ میں یہ کہنا درست ہے کہ یہ جگہ جامعہ کی حدود ہے ؟

4۔جب یہ جگہ جامعہ کی ملکیت ہی نہیں، اور نہ وقف علی الجامعہ ہے، اور نہ ہی وہ کمرہ یامکان جامعہ /مدرسہ کی جگہ پر بنایا گیا ہے، تو اس کے متعلق یہ کہنا کہ تعمیر کاخرچہ مدرسہ کے ساتھ تعاون شمار ہوگا ؟

5۔اور اس کے بعد یہ کہنا اس کی باقاعدہ رسید کٹوائی جائے گی ،کیا درست ہے ؟جب کہ جگہ ہی  جامعہ کی نہیں اورنہ یہ وقف علی الجامعہ ہے ۔

6۔گورنمنٹ اور سرکاری جگہ یاکسی دوسرے شخص کی جگہ سے متعلق یہ مذکورہ معاہدہ لینا درست ہے؟

7۔اور اگر کسی نے معاہدہ سےپہلے گورنمنٹ کی جگہ پر گھر بنایا  یا اس معاہدہ پر دستخط ہی نہیں کیے ا،ور پھر اپنے خون پسینےکی کمائی اور ذاتی پیسہ لگا کر سرکاری جگہ  پر مکان یا کمرہ تعمیر کیا ،تو وہ کمرہ /مکان کس کی ملکیت تصور ہوگا ؟اور اگر بنانے والے کی ملکیت ہے، توکیا وہ خالی اس مکان یا کمرہ کو بیچ سکتا ہے ؟

8۔کیا گورنمنٹ اور سرکاری جگہ پر قبضہ کرکے اس پر وقف اور مدرسہ کے فنڈ سےعملہ کے مکانات تعمیر کرنا شرعا ًجائز ہے ؟

جواب

1۔2۔۔واضح رہے کہ سرکاری زمین میں  سرکار کی اجازت کے بغیر کسی قسم کاتصرف کرنا جائز نہیں ہے،یعنی حکومتی زمین پر تعمیر کرکے رہائش اختیار کرنایا کرائے پر دینا یا کسی بھی قسم کا فائد اٹھانا درست نہیں ہے،بہر صورت سرکار کی اجازت ضروری ہے،صورتِ  مسئولہ میں جن لوگو ں نے گورنمنٹ  کی زمین پر گورنمنٹ کی اجازت کے بغیر قبضہ کرکے اس پرکمرہ یا گھر  کی تعمیر کی ہےاور اس سے فائدہ اٹھارہے  ہیں، یہ درست نہیں ہے، اورسرکاری زمین کسی کی ملکیت میں نہیں ہے،البتہ تعمیرکرنے والا شخص  ہی تعمیر کا مالک ہے ،اورتعمیرکرنے والا  کمرہ یا گھر کو بیچ سکتا ہے،زمین کو نہیں بیچ سکتا، اس لیے کہ زمین اس کی ملکیت میں نہیں ہے۔ 

3۔4۔5۔۔6اگر وہ جگہ واقعتاً جامعہ کی  نہیں ہے اور نہ وہ جگہ وقف علی الجامعہ ہے، بلکہ گورنمنٹ کی ہے،  تو اس کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ جگہ جامعہ کی حدود ہے ،اور یہ کہنا کہ تعمیرکا خرچہ مدرسہ کے ساتھ تعاون شمار ہوگا،اوریہ کہنااس کی باقاعدہ معاہدہ کی رسید کٹوائی جائے گی،  یہ درست نہیں ہے۔

7۔اور اگر کسی نے اس معاہدہ سے پہلے گو رنمنٹ کی جگہ پر گھر بنایا ہو اور اس معاہدہ پر دستخط نہیں کیے ہو، تو وہ کمرہ یا مکان  تعمیر کرنے والے کی ملکیت ہے، اور تعمیر کرنے والا شخص زمین کے علاوہ صرف  مکان اور گھر کو  بیچ سکتا ہے ۔

8۔اگرکوئی گورنمنٹ کی جگہ پر قبضہ کرکے اس پر وقف اور مدرسہ کے فنڈ سے عملہ کے مکانات تعمیر کرے،تو یہ شرعًا جائز نہیں ہے ۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن أبي حميد الساعدي رضي الله عنه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : لا يحل لامرئ أن يأخذ مال أخيه بغير حقه و ذالك لما حرم الله مال المسلم على المسلم."

(مسند احمد ابن حنبل ،ج: 39، ص: 18، رقم الحديث: 23605 ،ط: مؤسسة الرسالة)

"عن سعيد بن زيد ابن عمرو بن نفيل:أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال"من ‌اقتطع ‌شبرا من الأرض ظلما، طوقه الله إياه يوم القيامة من سبع أرضين."

(كتاب المساقاة،باب تحريم الظلم و غصب الأرض و غيرها،ج؛3، ص:1230،رقم الحديث: 1610،ط: دار إحياء التراث العربي)

فتاوی شامی میں ہے:

"(عمر دار زوجته بماله بإذنها فالعمارة لها والنفقة دين عليها) لصحة أمرها (ولو) عمر (لنفسه بلا إذنها العمارة له) ويكون غاصبا للعرصة فيؤمر بالتفريغ بطلبها ذلك (ولها بلا إذنها فالعمارة لها وهو متطوع) في البناء فلا رجوع له ولو اختلفا في الإذن وعدمه، ولا بينة فالقول لمنكره بيمينه، وفي أن العمارة لها أو له فالقول له لأنه هو المتملك كما أفاده شيخنا.....(قوله عمر دار زوجته إلخ) على هذا التفصيل عمارة كرمها وسائر أملاكها جامع الفصولين، وفيه عن العدة كل من بنى في دار غيره بأمره فالبناء لآمره ولو لنفسه بلا أمره فهو له، وله رفعه إلا أن يضر بالبناء، فيمنع ولو بنى لرب الأرض، بلا أمره ينبغي أن يكون متبرعا كما مر."

(كتاب الوصايا، مسائل شتى، ج: 6، ص: 747، ط: سعيد)

فتاویٰ شامی میں ہے :

"(قوله: وشرطه شرط سائر التبرعات) أفاد أن الواقف لا بد أن يكون مالكه وقت الوقف ملكا باتا ولو بسبب فاسد، وأن لا يكون محجورا عن التصرف، حتى لو وقف الغاصب المغصوب لم يصح، وإن ملكه بعد بشراء أو صلح."

(كتاب الوقف ،‌‌مطلب قد يثبت الوقف بالضرورة ،ج:4،ص:341،ط:سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

"فإن شرط الوقف التأبيد والأرض إذا كانت ملكا لغيره فللمالك ‌استردادها، وأمره بنقض البناء وكذا لو كانت ملكا له فإن لورثته بعده ذلك، فلا يكون الوقف مؤبدا."

(كتاب الوقف ،‌‌مطلب في استبدال الوقف وشروطه،ج:4،ص:390،ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144512100711

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں