بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

سرکاری ملازمین کی تنخواہ سے ماہانہ کٹوتی پر ملنے والی اضافی رقم کا حکم


سوال

ایک آدمی گورنمنٹ کے ادارے میں ملازم ہے، گورنمنٹ ہر ماہ 100 روپے تنخواہ سے کٹوتی کرتی ہے اور اس پر سالانہ منافع دیتی ہے، اب یہ 100 روپے کٹوتی آپ رکوا نہیں سکتے، آپ چاہیں یا نہ چاہیں یہ کٹوتی ہوگی، کیا اس پر ملنے والا نفع سود ہوگا یا نہیں؟ واضح ہو کہ نفع کی شرح ہر سال مختلف ہوتی ہے، لیکن نقصان کبھی نہیں ہوتا۔ اب دوسری بات یہ ہے کہ بعض لوگ اپنی مرضی سے کٹوتی 2000 یا زائد کرا دیتے ہیں؛ تاکہ سروس کے اختتام پر زیادہ رقم ملے تو کیااس زائد پر  ملنے والا منافع بھی سود ہوگا، جب کہ اس پر بھی نقصان نہیں ہوتا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں گورنمنٹ  ملازمین کی تنخواہ سے جو ہر ماہ جبری کٹوتی کرتی ہے  اور اس پر منافع کے نام سے اضافی رقم دیتی ہے اور اس میں ملازم کا کوئی اختیار نہیں ہوتا  تو شرعًا یہ ملازم کے حق میں سود  نہیں ہے،  ملازمین کے لیے اصل رقم اور اضافہ  لینا شرعاً جائز  ہے۔ اس لیے ملازم نے اپنی رضامندی سے رقم جمع نہیں کروائی، ادارہ اس سے جس طرح بھی نفع کمائے ملازم اس کا ذمہ دار نہیں ہوتا، اور قانوناً وشرعاً ابھی تک مذکورہ رقم اس کی ملکیت میں بھی نہیں ہوتی؛ لہٰذا اس کے لیے اضافی رقم لینا جائز ہوگا۔

اور جن صورتوں میں ملازمین جبری اور غیر اختیاری کٹوتی کے علاوہ اپنے اختیار سے بھی رقم کٹواتے ہیں  تو اس کا حکم یہ ہے کہ   جتنی کٹوتی جبراً ہوئی ہے اس پر ملنے والی زائد رقم ملازم کے لیے لینا شرعاً جائز  ہے اور جتنی رقم ملازم نے اپنے اختیار سے کٹوائی ہے اس پر ملنے والی زائد رقم لینا جائز نہیں۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144202200406

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں