ایک شخص کی سرکاری نوکری ہے، لیکن وہ خود ڈیوٹی سر انجام نہیں دیتا ہے، بلکہ اس نے اپنی جگہ ایک اور آدمی کو ماہانہ چار پانچ ہزار روپے کے عوض اپنی ڈیوٹی پر مقرر کیا ہے، وہ شخص اپنے محلے کے امام مسجد سے کبھی کبھی مالی تعاون کرتا ہے ، کبھی کوئی تحفے تحائف وغیرہ بھیجتا ہے۔ کیا امام مسجد کے لیے اس آدمی سے نقدی ،تحفے تحائف وغیرہ لینا شرعاً درست ہے یا نہیں ؟ اگر درست نہیں ہے تو جو کچھ لیا گیا ہے اس کا کیا کیا جائے ؟
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص کا عمل ناجائز ہے اور اس کی آمدن بھی حلال نہیں ہے، امام کے لیے اس شخص سے ہدیہ قبول کرنے کی تفصیل یہ ہے کہ اگر ہدیہ دینے والے کی غالب آمدن حلال نہ ہو (مثلاً صرف اس سرکاری نوکری کی ہی تنخواہ آتی ہو) تو اس بات کا علم ہونے کی صورت میں جان بوجھ کر اس کا ہدیہ قبول کرنا درست نہیں ہے ، اگر ایسے ہدیے استعمال کر لیے ہیں تو ان پر توبہ و استغفار کرے اور آئندہ اس کے قبول کرنے سے اجتناب کرے اور اگر وہ حلال رقم سے یا حلال رقم قرض لے کر ہدیہ کرتا ہے تو وہ لینا جائز ہے۔
المحيط البرهاني میں ہے:
"وفي «عيون المسائل» : رجل أهدى إلى إنسان أو أضافه إن كان غالب ماله من حرام لا ينبغي أن يقبل ويأكل من طعامه ما لم يخبر أن ذلك المال حلال استقرضه أو ورثه، وإن كان غالب ماله من حلال فلا بأس بأن يقبل ما لم يتبين له أن ذلك من الحرام؛ وهذا لأن أموال الناس لا تخلو عن قليل حرام وتخلو عن كثيره، فيعتبر الغالب ويبنى الحكم عليه".
(5 / 367، الفصل السابع عشر فی الھدایا والضیافات، ط: دارالکتب العلمیہ)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144404101690
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن