بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

سرکاری ٹیچر کا ملازمت کےاوقات میں کسی اور کے لیے کام کرنا کا حکم


سوال

 میں گورنمنٹ پرائمری سکول میں ٹیچر ہوں ، میرے پاس اپنی ذاتی پرنٹر مشین ہے ، جس سے میں اپنا کام کرتا ہوں ، بعض اوقات اسکول میں بچوں  کے لیے چیزیں پرنٹ کرنے کی ضرورت پڑتی ہے تو میں بچوں سے پیسے لےکر مارکیٹ سے کم قیمت میں ان  کے لیے پرنٹ کرتا ہوں ، اس کے علاوہ کچھ چیزیں (مضمون وغیرہ) میں خود کمپوز بھی کرتا ہوں، لیکن کمپوزنگ کے پیسے نہیں لیتا، اس کام میں مجھے بھی تھوڑا بہت منافع مل جاتا ہے ۔ تو کیاپڑھائی کےاوقات میں  بحثیت سکول ٹیچر میرے  لیے ایسا کرنا صحیح ہے اور کیا یہ منافع میرے  لیے حلال ہے ؟ 

جواب

واضح رہے کہ کسی بھی ادارے کے  ملازمین کی حیثیت اجیرِ خاص کی ہوتی ہے،اور اجیرِ خاص کےلیے ملازمت کے اوقات میں  کوئی دوسرا کام    کرنادرست نہیں ، اور اسی وقت اسکول کی  سرکاری بجلی بھی  استعمال ہوگی ،جس کا استعمال شرعاً درست نہیں ہے ،لہذا  آپ کے لیے اس طرح منافع کمانا جائز نہیں ہے۔ البتہ اس پرنٹ اور مضمون نگاری  کےلیےاپنی بجلی استعمال کر کے   چھٹی کے اوقات میں   مذکورہ کام کیا جائے تو  درست ہوگا۔

تبیین الحقائق میں ہے:

"والأجير الخاص لا يمكنه أن يعمل لغيره لأن منافعه في المدة صارت مستحقة للمستأجر والأجر مقابل بالمنافع، ولهذا يبقى الأجر مستحقا، وإن نقص العمل."

(کتاب الإجارۃ،باب ضمان الاجیر،5/134،ط،دار الكتاب الإسلامي)

فتاوی شامی میں ہے:

"والخاص لا يمكنه أن يعمل لغيره؛ لأن منافعه في المدة صارت مستحقة للمستأجر والأجر مقابل بالمنافع ولهذا يبقى الأجر مستحقا وإن نقض العمل ،قال أبو السعود: يعني وإن نقض عمل الأجير رجل، بخلاف ما لو كان النقض منه فإنه يضمن كما سيأتي(قوله حتى يعمل)  لأن الإجارة عقد معاوضة فتقتضي المساواة بينهما، فما لم يسلم المعقود عليه للمستأجر لا يسلم له العوض والمعقود عليه هو العمل أو أثره على ما بينا فلا بد من العمل زيلعي والمراد لا يستحق الأجر مع قطع النظر عن أمور خارجية."

(کتاب الإجارۃ، باب ضمان الإجارۃ، ج:6، ص:64، ط: سعید)

فتاویٰ شامی میں ہے:

" وليس للخاص أن يعمل لغيره، ولو عمل نقص من أجرته بقدر ما عمل فتاوى النوازل."

(قوله وليس للخاص أن يعمل لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلا يوما يعمل كذا فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة وفي فتاوى سمرقند: وقد قال بعض مشايخنا له أن يؤدي السنة أيضا. واتفقوا أنه لا يؤدي نفلا وعليه الفتوى. وفي غريب الرواية قال أبو علي الدقاق: لا يمنع في المصر من إتيان الجمعة، ويسقط من الأجير بقدر اشتغاله إن كان بعيدا، وإن قريبا لم يحط شيء فإن كان بعيدا واشتغل قدر ربع النهار يحط عنه ربع الأجرة. (قوله ولو عمل نقص من أجرته إلخ) قال في التتارخانية: نجار استؤجر إلى الليل فعمل لآخر دواة بدرهم وهو يعلم فهو آثم، وإن لم يعلم فلا شيء عليه وينقص من أجر النجار بقدر ما عمل في الدواة."

( كتاب الإجارة، باب ضمان الأجير، مبحث الأجير الخاص، مطلب ليس للأجير الخاص أن يصلي النافلة70/6،ط، سعید )

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144508100730

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں