بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

سرکاری زمین میں لگے درخت کے پھل کاحکم


سوال

میں ایک سرکاری اسکول میں استاد ہوں،ہمارے اسکول میں پھل دار درخت (انجیر اور انار) موجود ہیں، کیا اس کا پکا ہوا پھل ہم یعنی ملازمین کھا سکتے ہیں؟ یہ درخت درجہ چہارم ملازمین (مالی، بہشتی، چوکیدار، خاکروب) وغیرہ نے لگائے ہیں۔

جواب

صورت مسئولہ میں  اگر آپ کو درخت لگانے والے ملازمین  کی طرف سے اجازت ہے،  تو آپ کے لیے پھل استعمال کرنا جائز ہے ،اور اگر ان کی اجازت نہ ہو تو پھر جائز نہیں۔

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"إذا مر الرجل بالثمار في أيام الصيف وأراد أن يتناول منها والثمار ساقطة تحت الأشجار، فإن كان ذلك في المصر لا يسعه التناول إلا إذا علم أن صاحبها قد أباح إما نصا أو دلالة بالعادة، وإن كان في الحائط، فإن كان من الثمار التي تبقى مثل الجوز وغيره لا يسعه الأخذ إلا إذا علم الإذن، وإن كان من الثمار التي لا تبقى تكلموا فيه قال الصدر الشهيد - رحمه الله تعالى -والمختار أنه لا بأس بالتناول ما لم يتبين النهي، إما صريحا أو عادة، كذا في المحيط. والمختار أنه لا يأكل منها ما لم يعلم أن أربابها رضوا بذلك، كذا في الغياثية۔۔۔۔۔۔۔۔وأما إذا كانت الثمار على الأشجار فالأفضل أن لا يأخذ من موضع ما إلا بالإذن إلا أن يكون موضعا كثير الثمار يعلم أنه لا يشق عليهم أكل ذلك فيسعه الأكل، ولا يسعه الحمل".

(الفتاوى الهندية، كتاب الكراهية، ج:5  ص:340،339، ط: رشيدية)

امداد الفتاوی میں ہے:

"سوال " ایک سڑک سرکار کی جانب سے نکالی گئی، اور اس کا معاوضہ زمینداروں کو نہیں دیا گیا، اور زمینداروں کو معاوضہ نہ دینے کی یہ وجہ بیان کی گئی کہ سڑک پبلک یعنی عوام کی ہے، قاعدہ کی رو سے معاوضہ نہیں مِل سکتا اور سڑک کے کنارے کنارے درخت لگانے کی اجازت عام لوگوں کو بایں شرط دی جاتی ہے کہ درخت لگانے والا پھل کا مالک رہے اوردرخت خشک ہوجانے کے بعد لکڑی کاٹ کر لے جاسکتا ہے اور درخت شاداب اور کھڑا سرکار کا ہے،آیا درخت لگانے والا اس کے پھل کو بطور ملکیت خود فروخت کر سکتا ہے شرعاً جائز ہے یا نہیں ، بینوا توجروا؟

الجواب: استیلاء سرکار سے ا س سڑک کی زمین اصلی مالک کی ملک سے خارج ہو گئی، جب باجازت سرکار کسی نے اس میں درخت لگایا، اس کا پھل بھی مملوک اس ہی لگانے والے شخص کا ہے، اس لیے اس پھل کا فروخت کرنا جائز ہے، جب کہ پھل نمودار ہوگیا ہو، اور کام میں لانے کے قابل ہوگیا ہو"۔

(امداد الفتاوی ،ج :3،ص :35،ط:مکتبہ دارالعلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511100181

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں