بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

سرسوں کا تیل نکال کر فروخت کرنے کا کاروبار کرنے والا کس طرح زکاۃ دے


سوال

میری ایک دوکان ہے جو کہ میرے اپنے نام پر ہے، اس میں میں سرسوں کا تیل نکالتا اور بیچتا ہوں، اب اس کی زکوٰۃ کیسے  نکالی جائے گی؟ تیل ہر دوسرے یا تیسرے دن نیا بنتا ہے اور پرانا ختم ہوتا ہے۔  دوکان میں مشین وغیرہ بھی ہے اس کی زکوٰۃ کا طریقہ کیا ہو گا؟

جواب

صورت مسئولہ میں سائل کی دوکان میں موجود  تیل نکالنے کی مشینری  پر زکوٰة واجب نہیں ہوگی، البتہ جس دن زکوٰۃ  کا  سال پورا ہوتا ہو ،اس دن سائل کی ملکیت میں جو مال ِ تجارت موجود ہو یعنی ثابت سرسوں اور سرسوں کا تیل، اسی طرح نقد رقم  ان سب کی مجموعی مالیت اگر زکوۃ  چاندی کے نصاب ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے مساوی یا زائد ہو، تو کل مالیت کا ڈھائی فیصد بطور زکوٰة ادا کرنا لازم ہوگا، نیز مال تجارت کی مالیت  کے تعین میں قیمت فروخت کا اعتبار  ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وسببه) أي سبب افتراضها (ملك نصاب حولي) نسبة للحول لحولانه عليه (تام) بالرفع صفة ملك، خرج مال المكاتب ... (فارغ عن دين له مطالب من جهة العباد) ... قوله: (وفارغ عن حاجته الأصلية) أشار إلى أنه معطوف على قوله عن دين (قوله وفسره ابن ملك) أي فسر المشغول بالحاجة الأصلية والأولى فسرها، وذلك حيث قال: وهي ما يدفع الهلاك عن الإنسان تحقيقا كالنفقة ودور السكنى وآلات الحرب والثياب المحتاج إليها لدفع الحر أو البرد أو تقديرا كالدين، فإن المديون محتاج إلى قضائه بما في يده من النصاب دفعا عن نفسه الحبس الذي هو كالهلاك وكآلات الحرفة وأثاث المنزل ودواب الركوب وكتب العلم لأهلها فإن الجهل عندهم كالهلاك، فإذا كان له دراهم مستحقة بصرفها إلى تلك الحوائج صارت كالمعدومة، كما أن الماء المستحق بصرفه إلى العطش كان كالمعدوم وجاز عنده التيمم."

(كتاب الزكاة ،سبب افتراضها،2 /259، 262، ط: سعید)

وفي بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع:

"وأما أموال التجارة فتقدير النصاب فيها بقيمتها من الدنانير والدراهم فلا شيء فيها ما لم تبلغ قيمتها مائتي درهم أو عشرين مثقالا من ذهب فتجب فيها الزكاة، وهذا قول عامة العلماء."

 (كتاب الزكاة ،فصل أموال التجارة،2/ 20،ط:علمیہ )

فتاوی شامی میں ہے:

"(وجاز دفع القیمة في زكاة وعشر وخراج وفطرة ونذر وكفارة غير الإعتاق)، وتعتبر القيمة يوم الوجوب، وقالا: يوم الأداء. وفي السوائم يوم الأداء إجماعاً، وهو الأصح، ويقوم في البلد الذي المال فيه، ولو في مفازة ففي أقرب الأمصار إليه، فتح."

(کتاب الزکوۃ، باب زکاۃ الغنم، 2/ 286، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144608101638

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں