میرے والد سرکاری ملازم تھے، جب سروس کا وقت پورا ہوا تو گورنمنٹ نے میرے والد کو پیش کش کی کہ سروس فنڈ میں تیس ہزار روپے زیادہ لیں، اس صورت میں آپ کے بچوں کو آپ کی جگہ نوکری نہیں ملے گی، بصورتِ دیگر آپ کا ایک بچہ نوکری پر لگ سکتا ہے، میرے والد نے کہا کہ میں فنڈ میں تیس ہزار روپے اضافی نہیں لیتا،بلکہ اپنے ایک بچے کو نوکری پر لگانا چاہتا ہوں، والد صاحب نے میرا انتخاب کیا، جب کہ میں چاہ رہا تھا کہ مجھ سے چھوٹا بھائی اس نوکری پر لگ جائے، لیکن والد صاحب کی خواہش تھی کہ تم لگ جاؤ، جب میری نوکری ہوگئی تو میرے والد صاحب نے کہا کہ تمہاری نوکری ہوگئی ہے، بس اپنے چھوٹے بھائی کی شادی میں خیال رکھنا، میں نے کہا کہ ابو آپ بالکل فکر نہ کریں، میں نے 22 سال کمایا اور اپنے بھائیوں پر خرچ کیا ، والد صاحب کے انتقال کے بعد اب ہم سب بھائی الگ الگ ہوگئےہیں، سب کو اپنا اپنا حصہ مل گیا ، سب خوش ہیں، بلکہ چھوٹے بھائی کو ہم نے جائیداد میں سے زیادہ حصہ دیا ہے، سات سال ہوگئے کہ ہم الگ ہوچکے ہیں ، اب سوال یہ ہے کہ میں نوکری سے ریٹائرڈ ہورہا ہوں، مجھے گورنمنٹ کی جانب سے سروس فنڈ ملے گا، کیا اس فنڈ میں شرعاً میرے ساتھ میرے بھائیوں کا حصہ ہے یا نہیں ؟جب کہ والد صاحب نے کوئی وصیت بھی نہیں کی اور میں نے 22 سال کمایا اور اپنے بھائیوں پر خرچ کیا اور ان کی شادیاں خود کروائی ہیں، سب کچھ میرے ذمہ تھا جو میں نے ایک بڑے بھائی کی حیثیت سے نبھایا ہے۔
واضح رہے کہ گورنمنٹ کی جانب سے ملازم کو سروس پورا کرنے پر ملنے والا سروس فنڈ ملازم کو گورنمنٹ کی جانب سے عطیہ اور بخشش ہے، اس فنڈ کا مالک ملازم ہی ہے، کسی اور کا اس میں کوئی حق نہیں ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں سروس مکمل ہونے پر سائل کو گورنمنٹ سے ملنے والے سروس فنڈ کا مالک سائل هي ہے، اس میں سائل کے بھائیوں کا شرعاً کوئی حصہ نہیں ہے۔
اللباب فی شرح الکتاب میں ہے:
(الهبة) لغة: التبرع والتفضل بما ينفع الموهوب مطلقاً، وشرعا: تمليك عين بلا عوض، و (تصح بالإيجاب والقبول) ، لأنها عقد كسائر العقود، إلا أن الإيجاب من الواهب ركن، والقبول ليس بركن استحساناً، خلافا لزفر كما في الفيض، وفي الدرر: قال الإمام حميد الدين: ركن الهبة الإيجاب في حق الواهب، لأنه تبرع فيتم من جهة المتبرع، أما في حق الموهوب له فلا تتم إلا بالقبول اهـ. وفي الجوهرة: وإنما عبر هنا بتصح وفي البيع بينعقد لأن الهبة تتم بالإيجاب وحده، ولهذا لو حلف لا يهب فوهب ولم يقبل الموهوب له حنث، أما البيع فلا يتم إلا بهما جميعاً. اهـ.ثم لا ينفذ ملك الموهوب له (وتتم) الهبة له إلا (بالقبض) الكامل الممكن في الموهوب، فالقبض الكامل في المنقول ما يناسبه، وكذا العقار كقبض المفتاح أو التخلية، وفيما يحتمل السمة بالقسمة، وفيما لا يحتملها بتبعية الكل، وتمامه في الدرر (فإن قبض الموهوب له) الهبة (في المجلس بغير أمر الواهب) ولم ينهه (جاز) استحساناً، لأن الإيجاب إذنٌ له بالقبض دلالة (وإن قبض بعد الافتراق لم تصح) الهبة؛ لأن القض في الهبة منزل منزلة القبول، والقبول مختص بالمجلس، فكذا ما هو بمنزلته بالأولى (إلا أن يأذن له الواهب في القبض) لأنه بمنزلة عقد مستأنف. قيدنا بعدم نهيه لأنه لو نهاه عن القبض لم يصح قبضه، سواء كان في المجلس أو بعده، لأن الصريح أقوى من الدلالة.(وتنعقد الهبة بقوله: وهبت، ونحلت، وأعطيت) ، لأن الأول صريح في ذلك، والثاني والثالث مستعملان فيه."
(کتاب الھبة، ج:2، ص:171، ط:المكتبة العلمية، بيروت)
مجلۃ الاَحکام العدلیہ میں ہے:
"(المادة 96) : لا يجوز لأحد أن يتصرف في ملك الغير بلا إذنه (المادة 97) : لا يجوز لأحد أن يأخذ مال أحد بلا سبب شرعي."
(المقدمة، المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية، ص:27، ط: نور محمد، كارخانه تجارتِ كتب)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144511102129
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن