بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

ساس کو شہوت کے ساتھ چھونے سے نکاح کا حکم


سوال

میرا داماد ایک گندا ذہنیت رکھنے والا شخص ہے، اس کی حرکتیں ٹھیک نہیں ہیں، اس نے چند مرتبہ میرے سامنے گندی ویڈیوز چلا کر رکھنے کی کوشش کی، اور آتے جاتے مجھ سے ٹکرا ناٹچ  کرنا شروع کر دیا ،میں نے ان حرکتوں  پر اس کو بہت ڈانٹا لیکن وہ باز نہیں آیا، ایک مرتبہ اس طرح جاتے ہوئے مجھ سے ٹکراکر میرے عضو مخصوص یعنی سامنے والی شرمگاہ پر ہاتھ مارا میں نے چلا کر بولا     کہ چلتے ہوئےتمہیں   نظر نہیں آتا ،میں نے سنا ہے کہ اگر داماد ساس پر غلط نظر ڈالیں یا غلط سوچ رکھے تو بیٹی کے ساتھ اس کا  نکاح ٹوٹ جاتا ہے، اس لیے اب ہماری رہنمائی فرمائیے کہ ان حرکتوں کی وجہ سے میری بیٹی کا اپنے شوہر سے نکاح باقی ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ اگر   کوئی  شخص اپنی ساس  کو شہوت  کے ساتھ ایسےچھوئے  کہ اس کے اور ساس  کے جسم کےدرمیان کوئی کپڑا حائل نہ ہو ،یا کپڑا تو ہو لیکن اس سے بدن کی گرمی محسوس ہو اور   اس شخص    کو شہوت بھی  ہو یا جسم کے ایسے حصے کو بلاحائل چھوئے یا بوسہ دے جہاں چھونے میں شہوت غالب ہو تو اس صورت میں حرمتِ مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے، اور پھر اس پر  بیوی (ساس کی بیٹی)  ہمیشہ کےلئے حرام ہوجا تی ہے۔

لہذا صورت مسئولہ میں  سائلہ کے داماد نے  سائلہ کی شرمگاہ کو اگر  بلاحائل  یعنی  کپڑے  کےبغیرہاتھ لگایاہو  ،یا  کپڑے کے اوپر سے ہاتھ لگایاہو،مگر اسے ساس کے  بدن کی گرمی محسوس ہوئی ہو ،   تو  اس صورت میں   شہوت ہونے کی صورت   میں حرمت مصاہرت  ثابت  ہوجائےگی، اور سائلہ  کی بیٹی اپنی شوہر پر  حرام ہوجائے گی  جس کی وجہ سے بیوی پر لازم ہوگا کہ وہ شوہر کو اپنی اوپر ہر گز قدرت نہ دے ، اور شوہر سے طلاق یا خلع لےکر  اس کے نکاح سے آزاد ہوجائے ،یاشوہر اپنی بیوی کو یوں  کہہ دے کہ   ’’میں نے تمہیں چھوڑ دیا یا آزاد کیا‘‘تواس سے نکاح ختم ہوجائے گا، جس کے بعد عدت گزار کر بیوی کا دوسری جگہ نکاح کرنا جائز ہوگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وكما تثبت هذه الحرمة بالوطء تثبت بالمس والتقبيل والنظر إلى الفرج بشهوة، كذا في الذخيرة. ثم المس إنما يوجب حرمة المصاهرة إذا لم يكن بينهما ثوب، أما إذا كان بينهما ثوب فإن كان صفيقا لا يجد الماس حرارة الممسوس لا تثبت حرمة المصاهرة. ولو مس شعرها بشهوة إن مس ما اتصل برأسها تثبت وإن مس ما استرسل لا يثبت. والشهوة تعتبر عند المس والنظر حتى لو وجدا بغير شهوة ثم اشتهى بعد الترك لا تتعلق به الحرمة. وحد الشهوة في الرجل أن تنتشر آلته أو تزداد انتشارا إن كانت منتشرة، كذا في التبيين. وهو الصحيح، كذا في جواهر الأخلاطي. وبه يفتى، ... هذا الحد إذا كان شابا قادرا على الجماع فإن كان شيخا أو عنينا فحد الشهوة أن يتحرك قلبه بالاشتهاء إن لم يكن متحركا قبل ذلك ويزداد الاشتهاء إن كان متحركا، كذا في المحيط. وحد الشهوة في النساء والمجبوب هو الاشتهاء بالقلب والتلذذ به إن لم يكن وإن كان فازدياده، كذا في شرح النقاية للشيخ أبي المكارم. ووجود الشهوة من أحدهما يكفي وشرطه أن لا ينزل حتى لو أنزل عند المس أو النظر لم تثبت به حرمة المصاهرة. ويشترط أن تكون المرأة مشتهاة، كذا في التبيين. والفتوى على أن بنت تسع محل الشهوة لا ما دونها."

(کتاب النکاح، الباب الثالث، ج:1، ص:374/375، ط:مكتبه رشيديه)

فتاوی شامی میں ہے:

"وثبوت الحرمة بلمسها مشروط بأن يصدقها، ويقع في أكبر رأيه صدقها وعلى هذا ينبغي أن يقال في مسه إياها لا تحرم على أبيه وابنه إلا أن يصدقاه أو يغلب على ظنهما صدقه".

(کتاب النکاح، فصل فى المحرمات، ج:3، ص:33، ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144610100359

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں