ملازم پیشہ عبداللہ کی ماہانہ تنخواہ اس کے بینک اکاؤنٹ میں آتی ہے ،عبداللہ جو کہ کرنٹ اکاؤنٹ رکھتا ہے ،کبھی کبھار اپنی چھوٹی موٹی ضرورت کے تحت رقم نکال لیتا ہے، لیکن پھر بھی تنخواہ کا ایک بڑا حصہ اکاؤنٹ میں موجود رہتا ہے،اسی تسلسل کے ساتھ اب تقریبا ایک سال کا عرصہ گزر چکا ہے اور اکاؤنٹ میں موجودہ رقم تقریبا ۷لاکھ ہے-آیا اس پر زکوۃ فرض ہے ؟ ہے تو کتنی مقدار ہوگی؟
واضح رہے کہ جس مسلمان عاقل بالغ شخص کی ملکیت میں ساڑھے سات تولہ سونا، یا ساڑھے باون تولہ چاندی یاساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر نقد رقم ( جو حاجت اصلیہ سے زائد ہو ) یا مالِ تجارت موجود ہو یا ان چاروں چیزوں میں کسی بھی دو یا زائد کامجموعہ ہو جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر پہنچتی ہو اور وہ شخص مقروض بھی نہ ہوتو ایسا شخص صاحبِ نصاب شمار ہوتا ہے، اور اس مال پر سال گزرنے کی صورت میں اس پر زکات واجب ہوتی ہےلہذا صورت مسئولہ میں بینک اکاؤنٹ میں موجود سات لاکھ روپے پرسالانہ ڈھائی فیصد زکوۃ واجب ہوگی۔اور سات لاکھ کا ڈھائی فیصد سترہ ہزار پانچ سو روپے ہے۔
فتح القدیر میں ہے:
"(الزكاة واجبة على الحر العاقل البالغ المسلم إذا ملك نصابا ملكا تاما وحال عليه الحول)."
(کتاب الزکوۃ جلد 2 ص: ۱۵۳ ط: دارالفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144409100366
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن