بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

شوال کے چھ روزےایک ساتھ یا الگ الگ رکھنا/صلاۃ التوبۃ/جمعہ کی دوسری اذان کا جواب


سوال

1: شوال کے جو چھ روزے ہیں ان کے لیے کیا خاص ایام مقرر ہیں یا شوال کے مہینے میں کسی بھی دن اپنی مرضی سے رکھ سکتے ہیں ؟

2: استغفار کی نیت سے نفل پڑھ سکتے ہیں ؟ اگر پڑھ سکتے ہیں تو اس کا طریقہ کیا ہوگا؟کیا اس کے لیئے مخصوص رکعتیں ضروری ہے؟اس کی نیت کس طرح کی جاتی ہے ؟

3: جمعہ کی دوسری اذان کے دوران خاموشی سے خطبہ کی نیت سے بیٹھنا چاہیے یا اذان کا جواب دینا چاہیئے ؟

جواب

1: شوال کے چھ روزوں کے لیے کوئی خاص دن مقرر نہیں، بلکہ عید کے پہلے دن کے علاوہ کسی بھی دن رکھ سکتے ہیں چاہے ایک ساتھ رکھے یا الگ الگ.پورے شوال میں مکمل کرسکتے ہیں

الدر مع الرد میں ہے:

"(وندب تفريق صوم الست من شوال) ولا يكره التتابع على المختار خلافا للثاني  حاوي.والاتباع المكروه ان يصوم الفطر وخمسة بعده فلو افطر الفطرلم يكره بل يستحب ويسن ابن كمال.

(قوله على المختار) قال صاحب الهدايه في كتابه التجنيس ان صوم الستة بعد الفطر متتابعة، منهم من كرهه، والمختار انه لا باس به، لان الكراهه انما كانت لانه لا يؤمن من ان يعد ذلك من رمضان فيكون تشبها بالنصارى والآن زال ذلك المعنى. "

(كتاب الصوم،فصل في العوارض  المبيحةلعدم الصوم،مطلب في صوم الست من شوال ج:2،ص:235ط: سعيد)

2: استغفار کی نیت سے نفل نماز پڑھی جاسکتی ہے جسے صلاۃ التوبۃ کہتے ہیں،اس کا کوئی خاص الگ سے طریقہ بھی نہیں بلکہ  جس طرح عام نمازیں پڑھی جاتی ہے اسی طرح یہ بھی پڑھی جائیگی ،اوراس کے لئے رکعتوں کی  کوئی خاص تعدادبھی  شریعت نےمقرر نہیں کی  ۔

نیز نیت دل کے ارادے کا نام ہے اور اگر دل کے ساتھ زبانی نیت بھی کی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں لہذا اگر صلاۃ التوبہ کی نیت کرنی ہو تو یوں کی جائے :نیت کرتا ہوں دو رکعت صلاۃ التوبۃ اللہ کی رضا کے لیے منہ میرا کعبہ شریف کی طرف .پھر تکبیرِتحریمہ کہے۔

سنن ابی داؤد میں ہے:

"ابو بكر رضي الله تعالى عنه انه قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ما من عبد يذنب ذنبا فيحسن الطهور ثم يقوم فيصلي ركعتين ثم يستغفر الله الا غفر الله له ثم قرا هذه الايه والذين اذا فعلوا فاحشه او ظلموا انفسهم ذكروا الله فاستغفروا لذنوبهم ."

ترجمہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :کہ کسی مسلمان سے کوئی گناہ سرزد ہو جائے ،اور اس کے بعد فورا وضو کر کے دو رکعت نماز پڑھے، پھر اللہ تعالی سے گناہ کی معافی مانگے، اللہ تعالی اس کے گناہ معاف کر دے گا ۔پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے  یہ آیت تلاوت فرمائی:اور ایسےلوگ کہ جب کوئی ایسا کام کرگزرتے ہیں جس میں زیادتی ہویا اپنی ذات پر نقصان اٹھاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کو یاد کرلیتے ہیں پھر اپنے گناہوں کی معافی چاہنے لگتے ہیں۔(بیان القرآن)

(كتاب الصلاة،باب تفريع ابواب شهر رمضان ،باب في الاستغفارج:1،ص:502،ط: البشرى)

3: جمعه كي دوسری اذان كا جواب زبان سے نہیں دینا چاہئے بلکہ خاموشی  سےبیٹھ کر دل ہی دل میں دے دینا چاہئے۔

الدر المختار ميں هے:

"قال: ‌وينبغي ‌أن ‌لا ‌يجيب ‌بلسانه اتفاقا في الأذان بين يدي الخطيب."

(کتاب الصلاۃ،باب الاذان،‌‌تحت عنوان "فائدة التسليم بعد الأذان"ج:1،ص:399،ط:سعید)

منحة الخالق  ميں هے:

"قال في النهر أقول: ينبغي أن لا تجب باللسان اتفاقا على قول الإمام في الأذان ‌بين ‌يدي ‌الخطيب."

(كتاب الصلاة،باب الاذان ،إجابة المؤذن،ج:1،ص:273،ط:دار الكتاب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144609100888

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں