بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوٹی پارلر کے کورس کا حکم


سوال

بیوٹی پارلر کا کورس کرنے کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح  رہے کہ بیوٹی پارلر میں مختلف کام سرانجام دیئے جاتے ہیں، جن میں سے بعض ناجائز ہیں؛ جیسے خواتین کا بال کٹوانا، داخل ستر جسم کے حصہ کا ویکس کروانا، وغیرہ، اور بعض کام جائز ہیں؛ جیسے میک اپ کرنا، سیاہ رنگ کے علاوہ بالوں کو ڈائی کرنا، پس صورت مسئولہ میں بیوٹی پارلر کا کورس کرنا نہ مکمل جائز ہوگا، اور نہ ہی مکمل نا جائز ،  بلکہ جائز کاموں کا سیکھنا اور انہیں سرانجام دینا، اور اس پر محنتانہ وصول کرنا جائز ہوگا، اور جو کام نا جائز ہیں، انہیں سیکھنا، انہیں سرانجام دے کر محنتانہ وصول کرنا ناجائز ہوگا۔

مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: لڑکیوں کو پارلر کا کام سکھانے کا حکم

صحیح البخاري میں ہے:

"عبد اللّٰہ بن مسعود رضي اللّٰہ عنه قال: لعن اللّٰہ الواشمات والمستوشمات، والمتنمّصات، والمتفلجات للحسن المغیرات خلق اللّٰہ تعالي، مالي لا ألعن من لعن النبي صلی اللّٰہ عليه وسلم وهو في کتاب اللّٰہ {مَا اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ} "

(باب المتفلجات للحسن، ٢ / ٨٧٨، رقم الحدیث: ٥٩٣١، ط: دار الفکر)

تکملة فتح الملھم علی صحیح مسلم میں ہے: 

"وأکثر ما تفعله النساء في الحواجب وأطراف الوجه ابتغاء للحسن والزينة فهو حرام بنص هذا الحدیث. أما إذا نبتت للمرأةلحية أوشارب أو عنفقة، فأخذها حلال عند الحنفية و الشافعية، ... وقال القرطبي في تفسيره ٥ : ٣٩٢:  ثم قيل: هذا المنهى عنه إنما هو فيما يكون باقيا، لأنه من باب تغيير خلق الله تعالى. فأما ما لا يكون باقيا، كالكحل والتزين به للنساء فقد أجازه العلماء مالك وغيره، وكرهه مالك للرجال، وأجاز مالك أيضا أنتشى المرأة يديها بالحناء.

والحاصل أن كل ما يفعل في الجسم من زيادة أو نقص من أجل الزينة بمايجعل الزيادة أو النقصان مستمرا مع الجسم وبما يبدو منه أنه كان في أصل الخلقة هكذا فإنه تلبيس وتغيير منهى عنه. وأما ما تزينت به المرأة لزوجها من تحمير الأيدى، أو الشفاه أو العارضين بما لا يلتبس بأصل الخلقة، فإنه ليس داخلا في النهي عندجمهور العلماء. وأما قطع الإصبع الزائدة ونحوها فإنه ليس تغييرا لخلق الله، وهو من قبيل إزالة عيب أو مرض، فأجازه أكثر العلماء خلافا لبعضهم."

(كتاب اللباس والزينة، باب تحريمفعل الواصلة، ٤/ ١٩٥،ط: مكتبة دار العلوم کراتشي)

شرح مختصر الطحاوي للجصاص میں ہے:

"مسألة: [عدم جواز الاستئجار على الطاعات]

قال أبو جعفر: (ولا يجوز الاستئجار على شيء من الطاعات، ولا على شيء من المعاصي).

أما الطاعات فقد بينا وجوهها.

وأما المعاصي، فلأنه لا يلزم فيها تسليم المنافع بعقد الإجارة، وما لا يستحق تسليمه بالعقد: لا يصح العقد عليه."

(كتاب المناسك، باب وجوب الحد، ٢ / ٤٩٥، ط: دار البشائر الإسلامية)

المبسوط للسرخسي میں ہے:

"ولا تجوز الإجارة على شيء من الغناء والنوح والمزامير والطبل وشيء من اللهو؛ لأنه معصية والاستئجار على المعاصي باطل فإن بعقد الإجارة يستحق تسليم المعقود عليه شرعا ولا يجوز أن يستحق على المرء فعل به يكون عاصيا شرعا."

(كتاب الإجارات، باب الإجارة الفاسدة، ١٦ / ٣٨، ط: دار المعرفة - بيروت، لبنان)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144508100210

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں