بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

سیکس روبوٹ کا حکم


سوال

قرآن کریم میں ایک آیت مبارکہ ہے:إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ کیا اس آیت مبارکہ سے سیکس روبوٹ کا جواز ثابت ہوسکتا ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں قرآن کریم کی مذکورہ آیت سورۃ المؤمنون کی ہے ،مکمل آیت یہ ہے:

{وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حافِظُونَ (5) إِلاّ عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ (6) فَمَنِ اِبْتَغى وَراءَ ذلِكَ فَأُولئِكَ هُمُ العادُونَ (7)}

ترجمہ : ’’ایمان والے وہ  لوگ ہیں  جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ،لیکن اپنی بیبیوں سے یا اپنی (شرعی) لونڈیوں سے (حفاظت نہیں کرتے) کیوں کہ ان پر (اس میں) کوئی الزام نہیں ، ہاں جو اس کے علاوہ (اور جگہ شہوت رانی کا) طلب گار ہو  ایسے لو گ حدِ (شرعی) سے نکلنے والے ہیں۔‘‘ (بیان القرآن)

اس آیت میں بیویوں اور شرعی باندیوں  سے درست طریقہ پر فائدہ اٹھانے کی اجازت دی گئی ہے اوراس کے علاوہ شہوت پوری کرنے کی  تمام صورتوں   کو ناجائز اور  حد سے تجاوز  قراردیا گیا ہے۔ سیکس روبوٹ کی اصل دیکھی جائے تو   یہ دیگر جنسی آلات کی طرح ایک آلہ اور  مشین ہے ،حقیقی انسان نہیں ہے،لہذا اس کا استعمال  بھی شرعا درست نہیں ہے،مذکورہ آیت سے اس کا عدم ِجواز ثابت ہوتا ہے ،جواز ثابت نہیں ہوتا۔

وفي التفسير المظهري:

"والذين هم لفروجهم حافظون (5) الفرج اسم لجميع سوءة الرجل والمرأة وحفظ الفرج التعفف عن الحرام.

إلا على أزواجهم صلة لحافظون من قولك احفظ على عنان فرسى يعنى لا تطلقه- واستقام المعنى لتضمن الحفظ معنى نفى البذل أو صلة لمقدور هو لا يبذلونها لدلالة قوله غير ملومين عليه- وجاز أن يكون المستثنى المفرغ منصوبا على الحال والتقدير حافظون لفروجهم في جميع الأحوال إلا قادرين على أزواجهم أي زوجاتهم أو ما ملكت أيمانهم أي سرياتهم يعنى ناكحين أو مالكين ...فمن ابتغى وراء ذلك المستثنى أي طلب سوى الأزواج والإماء المملوكة لبذل الفرج فأولئك هم العادون (7) أي الكاملون في الظلم والعدوان المتجاوزون عن الحلال إلى الحرام ... وأيضا في هذه الآية دليل على أن الاِستمناء باليد حرام- وهو قول العلماء قال ابن جريج سالت عطاء عنه فقال: مكروه، سمعت أن قوما يحشرون وأيديهم حبالى وأظن أنهم هؤلاء- وعن سعيد بن جبير قال: عذب الله أمة كانوا يعبثون بمذاكيرهم."

 (6/ 364،ط:رشیدیہ )

فتاوی شامی میں ہے:

"بقي هنا شيء وهو أن علة الإثم هل هي كون ذلك استمتاعا بالجزء كما يفيده الحديث وتقييدهم كونه بالكف ويلحق به ما لو أدخل ذكره بين فخذيه مثلا حتى أمنى، أم هي سفح الماء وتهييج الشهوة في غير محلها بغير عذر كما يفيده قوله وأما إذا فعله لاستجلاب الشهوة إلخ؟ لم أر من صرح بشيء من ذلك والظاهر الأخير؛ لأن فعله بيد زوجته ونحوها فيه سفح الماء لكن بالاستمتاع بجزء مباح كما لو أنزل بتفخيذ أو تبطين بخلاف ما إذا كان بكفه ونحوه وعلى هذا فلو أدخل ذكره في حائط أو نحوه حتى أمنى أو ‌استمنى بكفه بحائل يمنع الحرارة يأثم أيضا ويدل أيضا على ما قلنا ما في الزيلعي حيث استدل على عدم حله بالكف بقوله تعالى {والذين هم لفروجهم حافظون} [المؤمنون: 5] الآية وقال فلم يبح الِاستمتاع إلا بهما أي بالزوجة والأمة اهـ فأفاد عدم حل الاِستمتاع أي قضاء الشهوة بغيرهما هذا ما ظهر لي والله سبحانه أعلم."

(کتاب الصوم،باب مایفسد الصوم و مالا یفسدہ،2/ 399،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144605102261

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں