میں سیّد ہوں اور مقروض بھی ہوں، میری والدہ سیّد نہیں ہیں اور وہ مقروض بھی ہیں، اب سوال یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی زکوٰۃ ہماری والدہ کو دے سکتا ہے کہ ہم اپنا قرض اتار سکیں، نیز میری والدہ بیوہ ہیں، اور صاحب ِ نصاب بھی نہیں ہیں۔
صورتِ مسئولہ میں سائل کی والدہ اگر سیّد نہیں ہے، اور زکوٰۃ کی مستحق ہے یعنی اس کی ملکیت میں ضرورتِ اصلیہ (مثلا رہنے سہنے، کھانے پینے، لباس پوشاک اور استعمال کی سواری وغیرہ) کے علاوہ نصاب (ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کے بقدر رقم یا ان سب کو ملا کر مجموعی طور پر ساڑھے باون تولہ چاندی )کے برابر رقم نہیں ہے ، اور نہ ہی اس قدر ضرورت سے زائد سامان ہے کہ جس کی مالیت نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے) کے برابر بنتی ہے تو اگر کوئی شخص اس کو زکوٰۃ دیتا ہے تو یہ جائز ہے، اس سے زکوٰۃ دینے والے کی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔
نیز سائل کی والدہ زکوٰۃ کی رقم وصول کرنے کے بعد اگر اپنی خوشی سے سائل کو اس کا قرضہ اتارنے کے لیے رقم دے دے تو یہ جائز ہے۔
نوٹ: یہ سوال کا جواب ہے ، نہ حقیقت واقعہ کی تصدیق ہے اور نہ ہی سفارش ہے۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"لا يجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصابا أي مال كان دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضا للتجارة أو لغير التجارة فاضلا عن حاجته في جميع السنة هكذا في الزاهدي والشرط أن يكون فاضلا عن حاجته الأصلية، وهي مسكنه، وأثاث مسكنه وثيابه وخادمه، ومركبه وسلاحه، ولا يشترط النماء إذ هو شرط وجوب الزكاة لا الحرمان كذا في الكافي. ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من النصاب، وإن كان صحيحا مكتسبا كذا في الزاهدي. ولا يدفع إلى بني هاشم، وهم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقيل وآل الحارث بن عبد المطلب كذا في الهداية ويجوز الدفع إلى من عداهم من بني هاشم كذرية أبي لهب؛ لأنهم لم يناصروا النبي - صلى الله عليه وسلم - كذا في السراج الوهاج. هذا في الواجبات كالزكاة والنذر والعشر والكفارة فأما التطوع فيجوز الصرف إليهم كذا في الكافي."
(کتاب الزکاة، باب المصرف، 1 /189، ط: رشیدية)
حاشية ابن عابدين میں ہے:
"ويؤخذ من هذا أن من كانت أمها علوية مثلا وأبوها عجمي يكون العجمي كفؤا لها، وإن كان لها شرف ما لأن النسب للآباء ولهذا جاز دفع الزكاة إليها فلا يعتبر التفاوت بينهما من جهة شرف الأم ولم أر من صرح بهذا والله أعلم."
(كتاب النكاح، باب الكفاءة، 3/ 87، ط: سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144609100015
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن