ایک خاتون جو سیدہ ہے اور انتہائی مجبور ہے۔ مالک مکان کرایہ ادا نہ ہو سکنے کی وجہ سے گھر سے نکال رہا ہے۔ کیا اسے زکاۃ کی رقم دی جا سکتی ہے؟
مذکورہ صورت میں بھی سیدہ خاتون کو زکوۃ کی رقم نہیں دی جاسکتی۔ اصحابِ خیر کو چاہیے کہ عطیات اور نفلی صدقات سے ان کی مدد کریں، روزِ محشر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا سبب ہوگا، ان شاء اللہ۔
البتہ اگر کوئی تعاون کے لیے تیار نہیں، یا ارد گرد کے لوگوں کی مالی حیثیت ایسی نہیں کہ وہ عطیات سے تعاون کرسکیں تو یہ صورت اختیار کی جاسکتی ہے کہ کسی غیر سید فقیر کو زکات کی رقم بایں طور مالک بناکر اس کے قبضے میں دے دی جائے کہ وہ جس طرح چاہے اسے صرف کرنے میں خود مختار و آزاد ہو، اور اسے یہ مصرف اور تفصیل بھی بتادی جائے کہ فلاں سیدہ خاتون سخت محتاج ہیں، اور سادات کو زکات دینے کی اجازت نہیں ہے، اگر آپ اس رقم میں سے ان کا تعاون کرلیں تو مناسب ہوگا، اس کے بعد وہ اپنی خوشی سے، کسی بھی قسم کے دباؤ کے بغیر اس رقم سے سیدہ کا تعاون کرتاہے تو یہ جائز ہے۔
بدائعالصنائع میں ہے:
"وكما لايجوز صرف الزكاة إلى الغني لايجوز صرف جميع الصدقات المفروضة والواجبة إليه كالعشور والكفارات والنذور وصدقة الفطر؛ لعموم قوله تعالى: { إنما الصدقات للفقراء}، وقول النبي صلى الله عليه وسلم: { لاتحل الصدقة لغني}؛ ولأن الصدقة مال تمكن فيه الخبث؛ لكونه غسالة الناس؛ لحصول الطهارة لهم به من الذنوب، ولايجوز الانتفاع بالخبيث إلا عند الحاجة، والحاجة للفقير لا للغني". (4/32) فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144112200499
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن