میں ایک سرکاری اسکول میں تدریس کے فرائض انجام دے رہی ہوں۔ ہمارے اسکول میں ایک استانی صاحبہ کو قرآن مجید سے گہرا شغف ہے۔ وہ اکثر دیگر اساتذہ کے پیریڈز لے کر طالبات کو درس دیتی ہیں اور یہ سلسلہ پورے سال جاری رہتا ہے۔ اب تو انھوں نے اسکول کے اوقات میں اساتذہ کو بھی درس دینے کا آغاز کر دیا ہے، اور رمضان المبارک میں اس سرگرمی میں مزید انہماک آجاتا ہے۔
جو اساتذہ اس درس میں شرکت کرتی ہیں، وہ اکثر اپنی کلاسز چھوڑ کر ایک کمرے میں جمع ہو جاتی ہیں، جس کے نتیجے میں ان کی طالبات فارغ بیٹھی رہتی ہیں۔ درس دینے والی استانی صاحبہ کی اپنی کلاس کی جانب بھی توجہ بہت کم ہو گئی ہے، جس کا اثر یہ ہوا کہ رمضان کے دوران ان کی کلاس میں طالبات کی حاضری کم ہو کر 15 سے 40 فیصد رہ گئی ہے۔ اگلے ماہ بورڈ کے امتحانات ہونے والے ہیں، اور اس غیر حاضری کے باعث تعلیمی سلسلہ بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔
میرا سوال یہ ہے کہ کیا اسکول کے اوقات میں درسِ قرآن یا قرآن فہمی کی کلاس کا انعقاد درست ہے؟ کیا دیگر اساتذہ کا اپنے پیریڈز چھوڑ کر اس درس میں شامل ہونا مناسب ہے، جب کہ یہ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ عرصۂ دراز سے درس میں شرکت کے باوجود ان کی اسکول دیر سے آنے، کلاس میں تاخیر سے جانے، پیریڈز چھوڑنے اور تدریسی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرنے کی عادات میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں آئی؟
واضح رہے کہ کسی بھی ادارے کے ملازمین کی حیثیت شرعی طور پر اجیرِ خاص کی ہوتی ہے اور اجیر خاص کا حکم یہ ہے کہ وہ ملازمت کے اوقات میں (فرض، واجب اور سنتِ مؤکدہ نمازوں کی ادائیگی اور طبعی حاجت کے علاوہ) دوسرا کوئی کام نہیں کرسکتا؛ لہٰذا اسکول کے تعلیمی اوقات میں اسکول کی طرف سے مقررکردہ ذمہ داریوں کوپوراکیاجائے ،البتہ، اگر اسکول انتظامیہ کی اجازت سے مناسب اور فارغ وقت میں کسی باصلاحیت اورمستندمعلمہ کے درسِ قرآن کا اہتمام کیا جائے،اور اس سے تعلیمی سلسلہ بھی متاثر نہ ہو ، تو اس سے بہت فائدہ کی توقع ہے۔
منحۃ الخالق علی البحر الرائق میں ہے:
"(قوله: لم يجز إلا بإذن سيده) قال في النهر وينبغي أن يكون الأجير الخاص كذلك لا يحل أذانه إلا بإذن مستأجره."
(كتاب الصلاة، باب الأذان، ج: 1، ص: 279، ط: دار الكتاب الإسلامي)
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله: و ليس للخاص أن يعمل لغيره) بل و لا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي و إذا استأجر رجلاً يوماً يعمل كذا، فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة و لايشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة، و في فتاوى سمرقند: و قد قال بعض مشايخنا: له أن يؤدي السنة أيضاً. و اتفقوا أنه لايؤدي نفلاً، و عليه الفتوى."
(كتاب الإجارة، ج:6، ص: 70، ط: سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144609101148
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن