بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

اسکول ٹیچرز کے ساتھ تاخیر کرنے پر تنخواہ کی کٹوتی کامعاہدہ کرنے کا حکم


سوال

اگر میں اپنے اسکول میں ٹیچرز رکھتے وقت اُن کے  ساتھ معاہدہ کرلوں کہ اگر دو دن تاخیر کیں تو معاف ہے،لیکن تیسرے دن کی تاخیر پر ایک دن کی تنخواہ کے بقدر  کٹوتی ہوگی، پھر اس پر عمل بھی کروں تو کیاشرعًا یہ درست ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ کسی ادارے میں اگر ملازم کے ساتھ وقت دینے کی بنیاد پر اجرت طے ہوجائے، تو وہ ملازم اجیر خاص کہلاتا ہے اور اجیر خاص مقررہ وقت  میں اس ادارے میں حاضر رہنے اور خود کو مذکورہ کام کے لئے سپرد کردینے سے اجرت کا مستحق ہوتا ہے،خواہ ادارے کا ذمہ دار اس سے مذکورہ کام لے یا نہ لے۔  صورتِ مسؤلہ میں اسکول کے استاذ کی حیثیت اسکول کے لئے اجیر خاص کی ہے،لہٰذا وہ مقررہ وقت دیتے ہوئے خود کو کام کے لئے سپرد کرنے پر اجرت کا مستحق ہوگا۔ اگروہ مقررہ وقت سے غیر حاضر رہتا ہے، تو وہ صرف حاضری کے وقت کے بقدر اجرت کا مستحق ہوگا اورادارہ تنخواہ سے غیر حاضری کے  وقت کے بقدر رقم منہا کرنے کا مجاز ہوگا، اس سے زیادہ رقم کی کٹوتی جائز نہیں ہوگی۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر اسکول کے اساتذہ  کسی دن اسکول آنے میں تاخیر کرے تو جس قدر تاخیر کی ہے صرف اس قدر تنخواہ  سےکٹوتی جائز ہوگی، تاخیر کرنے پر پورے دن کے بقدر تنخواہ سے کٹوتی ناجائز اور حرام ہے۔

المبسوط  للسرخسی میں ہے:

"ولو ‌كان ‌يبطل ‌من ‌الشهر يوما أو يومين لا يرعاها حوسب بذلك من أجره سواء كان من مرض أو بطالة؛ لأنه يستحق الأجر بتسليم منافعه، وذلك ينعدم في مدة البطالة سواء كان بعذر أو بغير عذر."

(كتاب الإجارة، باب إجارة الراعي، 162/15، ط: دارالمعرفة)

درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"الأجير يستحق الأجرة إذا كان في مدة الإجارة حاضرا للعمل ولا يشترط عمله بالفعل ولكن ليس له أن يمتنع عن العمل وإذا امتنع لا يستحق الأجرة.ومعنى كونه حاضرا للعمل أن يسلم نفسه للعمل ويكون قادرا وفي حال تمكنه من إيفاء ذلك العمل.أما الأجير الذي يسلم نفسه بعض المدة، فيستحق من الأجرة ما يلحق ذلك البعض من الأجرة."

(كتاب الإجارة، الباب الأول في بيان الضوابط العمومية للإجارة، المادة: 425، 458/1، ط: دارالجیل)

المحیط البرہانی میں ہے:

"قال: ولو كان تبطّل يوماً أو يومين في الشهر، أو مرض يسقط الأجر بقدره؛ ‌لأنه ‌لم ‌يسلم ‌نفسه للرعي في مدة التبطل والمرض، وأجير الوحد إنما يستحق من الأجر بقدره."

(كتاب الإجارة، الفصل الثامن والعشرون في بيان حكم الأجير الخاص والمشترك، 602/7، ط: دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403101393

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں