بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

سکولز میں دوماہ کی چھٹیوں کی فیس لینے کا حکم


سوال

پرائیویٹ سکولز کی جانب سے بنا پڑھائے بچوں سے 2 ماہ کی چھٹیوں کی فیس لینا حرام ہے یا حلال ؟ 

جواب

 واضح رہے کہ تعلیمی ادارے میں چھٹیوں کے ایام ،تعلیمی ایام کے تابع ہوتے ہیں ؛لہذا صورت ِ مسئولہ میں اسکولز میں دوماہ کی چھٹیوں کی فیس لینا  شرعاً جائز ہے ،اس لیے کہ یہ ایام، تعلیمی ایام کے تابع ہیں  اور اسکول میں بچوں کو داخل کراتے وقت دونوں فریق کو اس کا علم بھی ہوتا ہے اس لیےعرف کی بناء پر بھی  اسکول والوں کا تعطیلات کے ایــام کی فیس لینا جائز ہے۔

فتاوی شامی میں ہے :

"مطلب في استحقاق القاضي والمدرس الوظيفة في يوم ‌البطالة

(قوله: وينبغي إلحاقه ببطالة القاضي إلخ) قال في الأشباه وقد اختلفوا في أخذ القاضي ما رتب له في بيت المال في يوم بطالته، فقال في المحيط: إنه يأخذ لأنه يستريح لليوم الثاني وقيل لا. اهـ. وفي المنية القاضي يستحق الكفاية من بيت المال في يوم ‌البطالة في الأصح، وفي الوهبانية أنه أظهر فينبغي أن يكون كذلك في المدرس؛ لأن يوم ‌البطالة للاستراحة، وفي الحقيقة تكون للمطالعة والتحرير عند ذوي الهمة، ولكن تعارف الفقهاء في زماننا بطالة طويلة أدت إلى أن صار الغالب ‌البطالة، وأيام التدريس قليلة اهـ ورده البيري بما في القنية إن كان الواقف قدر للدرس لكل يوم مبلغا فلم يدرس يوم الجمعة أو الثلاثاء لا يحل له أن يأخذ ويصرف أجر هذين اليومين إلى مصارف المدرسة من المرمة وغيرها بخلاف ما إذا لم يقدر لكل يوم مبلغا، فإنه يحل له الأخذ وإن لم يدرس فيهما للعرف، بخلاف غيرهما من أيام الأسبوع حيث لا يحل له أخذ الأجر عن يوم لم يدرس فيه مطلقا سواء قدر له أجر كل يوم أو لا. اهـ. ط قلت: هذا ظاهر فيما إذا قدر لكل يوم درس فيه مبلغا أما لو قال يعطى المدرس كل يوم كذا فينبغي أن يعطى ليوم ‌البطالة المتعارفة بقرينة ما ذكره في مقابله من البناء على العرف، فحيث كانت ‌البطالة معروفة في يوم الثلاثاء والجمعة وفي رمضان والعيدين يحل الأخذ، وكذا لو بطل في يوم غير معتاد لتحرير درس إلا إذا نص الواقف على تقييد الدفع باليوم الذي يدرس فيه كما قلنا. وفي الفصل الثامن عشر من التتارخانية قال الفقيه أبو الليث ومن يأخذ الأجر من طلبة العلم في يوم لا درس فيه أرجو أن يكون جائزا وفي الحاوي إذا كان مشتغلا بالكتابة والتدريس. اهـ. (قوله: وسيجيء) أي عن نظم الوهبانية بعد قوله مات المؤذن والإمام."

(کتاب الوقف،ج:4،ص:373،سعید)

امدادا لفتاوی میں ہے :

"تنخواہ تو ایام عمل ہی کی ہے ،مگر تعطیل کا زمانہ تبعا ً ایام عمل کے ساتھ ملحق ہے، تاکہ استراحت کرکے ایام عمل میں عمل کرسکے ،اس سے سب اجزاء کا جواب نکل آیا ،اول کا یہ حکماً بلا معاوضہ کام کے نہیں ،دوسرے کا یہ کہ شعبان کے ختم پر معزول ہوجانے سے تنخواہ نہ ملے گی اور عدم عزل میں رمضان کے ختم پر تنخواہ ملے گی ،بشرط یہ کہ شوال میں بھی کام کیا ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔الخ

سوال (306) اور طلباء سے تعطیل کا مشاہرہ لینا یا مہتمم سے لینا جائز ہے یا نہیں ؟

الجواب : المعروف کالمشروط کے قاعدے سے جائز ہے ".

(کتاب الاجارۃ،ج:3،ص:348،دارالعلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144511102010

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں