میں دبئی میں سیکیورٹی گارڈ ہوں اور آنے جانے والے کو دیکھنا میری ذمّہ داری ہے۔ اس ذمّہ داری کی وجہ سے لڑکیاں بھی آ کر مجھ سے لوکیشن پوچھتی ہیں، جن کی آنکھوں میں دیکھ کر جواب دینا لازمی ہے۔ رمضان میں بھی میں کام پر ہوں گا اور معمول کے مطابق لڑکیاں بھی آکر سوال یا شکایات کریں گی، تو کیا اس صورت میں میرے روزہ کے اجر و ثواب پر اثر پڑے گا؟
واضح رہے کہ لوکیشن (پتا) بتانے کے لیے پوچھنے والوں کی آنکھوں میں دیکھ کر جواب دینا ضروری نہیں ہے، ان کی طرف دیکھے بغیر بھی لوکیشن (پتا) بتایا جاسکتا ہے۔ لہٰذا رمضان و غیر رمضان کسی بھی حالت میں بلا ضرورت نامحرم لڑکیوں کی جانب دیکھنا یا ان سے بات کرنا جائز نہیں ہوگا۔
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سائل کو چاہیے کہ لوکیشن (پتا) پوچھنے والی لڑکیوں سے نظر بچاتے ہوئے انہیں ان کی مطلوبہ لوکیشن کی جانب راہ نمائی کردے، اور اگر ان کے چہرے پر نگاہ پڑ جائے تو غیر ارادی نگاہ پر روزہ کے اجر و ثواب میں کمی نہیں آئے گی، تاہم حتی الامکان ان کی جانب دیکھنے سے پھر بھی احتراز کرنا چاہیے۔
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
"وأما النظر إلى الأجنبيات فنقول: يجوز النظر إلى مواضع الزينة الظاهرة منهن وذلك الوجه والكف في ظاهر الرواية، كذا في الذخيرة. وإن غلب على ظنه أنه يشتهي فهو حرام، كذا في الينابيع. النظر إلى وجه الأجنبية إذا لم يكن عن شهوة ليس بحرام لكنه مكروه، كذا في السراجية. وروى الحسن عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - يجوز النظر إلى قدمها أيضا، وفي رواية أخرى عنه قال لا يجوز النظر إلى قدمها..... وكذلك يباح النظر إذا شك في الاشتهاء، كذا في الكافي. قيل: وكذلك يباح النظر إلى ساقها إذا لم يكن النظر عن شهوة، فإن كان يعلم أنه لو نظر يشتهي أو كان أكبر رأيه ذلك فليجتنب بجهده، كذا في الذخيرة."
(كتاب الكراهية، الباب الثامن، ج:5، 329، ط:المكتبة الرشيدية كوئته)
وفيه أيضاً:
"وإذا نظر إلى امرأة بشهوة في وجهها أو فرجها كرر النظر أولا لا يفطر إذا أنزل كذا في فتح القدير، وكذا لا يفطر بالفكر إذا أمنى هكذا في السراج الوهاج."
(كتاب الصوم،الباب الرابع، النوع الأول، ج:1، ص:204، ط:المكتبة الرشيدية كوئته)
الجوہرۃ النیرۃ میں ہے:
(قوله أو نظر إلى امرأة فأنزل لم يفطر) سواء نظر إلى الوجه أو إلى الفرج أو إلى غيرهما لما بينا أنه لم يوجد منه صورة الجماع ولا معناه فصار كالمتفكر إذا أمنى."
(کتاب الصوم، ج:1، ص:138، ط:المطبعة الخيرية القاهرة)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144608100278
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن