بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

سحری کا وقت


سوال

رمضان میں صبح کی اذان کے بعد کھایا پیا جاسکتا ہے جب تک سورج نہ نکلا ہو؟

جواب

روزہ صبح صادق سے شروع ہوتا ہے اور  فجر کا وقت صبحِ  صادق کے تحقق کے ساتھ ہوتا ہے، سحری کرنے والوں کو  اس سے پہلے پہلے کھانا پینا بند کرنا ضروری ہوتا ہے، یعنی انتہائے سحر صبح صادق پر ہوتی ہے  اور صبحِ  صادق اس سفیدی کو کہا جاتا ہے جو مشرق کی جانب، سورج طلوع ہونے سے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے پہلے آسمان کے کنارے پر چوڑائی میں یعنی شمالاً و جنوباً دکھائی دیتی ہے، اور جلد ہی پورے آسمان پر پھیل جائے، اس سے فجر کا وقت شروع ہوتا ہے، اور روزہ رکھنے والوں پر کھانا پینا حرام ہوجاتا ہے، یہی انتہائے سحر ہے؛ لہذا صورتِ  مسئولہ میں صبح صادق کے بعد سورج کے نکلنے سے پہلے تک بھی کھانا پیناجائز نہیں ۔ صبح صادق سے پہلے روزے کی نیت کرکے روزہ شروع کردیا تھا، پھر صبح صادق کے بعد جان کر کچھ کھایا پیا تو روزہ توڑنے کی وجہ سے قضا اور کفارہ دونوں لازم ہوں گے۔

جیسا کہ قرآن مجید میں باری تعالی کا فرمان ہے:

﴿ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا حَتّٰی يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْاَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّيَامَ اِلَی الَّيْلِ ﴾ (البقرة:187)

ترجمہ:’’  کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ سفید دھاگا یعنی صبح صادق  کالے دھاگے (رات کی تاریکی) سے واضح نہ ہوجائے، پھر روزہ مکمل کرو رات تک۔‘‘

فتاوی شامی میں ہے:

"(من) أول (طلوع الفجر الثاني) وهو البياض المنتشر المستطير لا المستطيل (إلى) قبيل (طلوع ذكاء) بالضم غير منصرف اسم الشمس.

(قوله: من أول طلوع إلخ) زاد لفظ أول اختيارًا لما دل عليه الحديث كما قدمناه.

(قوله: وهو البياض إلخ)؛ لحديث مسلم والترمذي واللفظ له: «لايمنعنكم من سحوركم أذان بلال و لا الفجر المستطيل ولكن الفجر المستطير»، فالمعتبر الفجر الصادق وهو الفجر المستطير في الأفق: أي الذي ينتشر ضوءه في أطراف السماء لا الكاذب و هو المستطيل الذي يبدو طويلًا في السماء كذنب السرحان أي الذئب ثم يعقبه ظلمة.

[فائدة] ذكر العلامة المرحوم الشيخ خليل الكاملي في حاشيته على رسالة الأسطرلاب لشيخ مشايخنا العلامة المحقق علي أفندي الداغستاني أن التفاوت بين الفجرين و كذا بين الشفقين الأحمر والأبيض إنما هو بثلاث درج. اهـ ."

(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) کتاب الصلوۃ ۔باب المواقیت  ج:1/ ص:359)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509102360

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں