مجھے معلوم کرنا ہے کہ SEO (سرچ انجن آپٹیمائزیشن) ڈیجیٹل مارکیٹنگ کی ایک فیلڈ ہے، کیا اس کی کمائی حلال ہے یا حرام؟ SEO میں جو ماہر ہوتا ہے، وہ ویب سائٹس کو رینک کرتا ہے، مطلب اگر آپ کوئی آن لائن کاروبار چلا رہے ہیں یا آن لائن کچھ بیچ رہے ہیں، تو آپ کو گوگل میں رینک کرنا ضروری ہے، اگر آپ کی ویب سائٹ رینک نہیں ہوئی، تو آپ اپنے ویب سائٹ کے ذریعے کچھ نہیں بیچ سکتے؛ کیوں کہ لوگ آپ کی ویب سائٹ تک نہیں پہنچ سکیں گے، مثال کے طور پر: اگر آپ کا کوئی موبائل کا آن لائن کاروبار ہے اور آپ آن لائن موبائل سیل کرتے ہیں، تو اگر کوئی شخص گوگل پر آئے اور اسے موبائل خریدنا ہو، تو وہ موبائل کا نام یا ماڈل لکھ کر تلاش کرے گا، گوگل اسے بہت ساری ویب سائٹس دکھائے گا، تو اگر آپ کی ویب سائٹ ان ٹاپ لسٹ میں نہیں ہے، تو آپ SEO فیلڈ کے کسی ماہر کو پیسے دے کر اپنی ویب سائٹ کو ٹاپ رینکنگ میں لاتے ہیں، SEO ماہر کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ گوگل کے الگوردمز کو سمجھ کر ویب سائٹ کو ان الگوردمز کے مطابق ترتیب دیتا ہے تاکہ گوگل میں اسے رینکنگ ملے، اب مسئلہ یہ ہے کہ اگر آپ SEO کی خدمات دے رہے ہیں تو آپ کو فری لانسنگ مارکیٹ پلیس سے کلائنٹس ملتے ہیں جو مختلف ممالک سے ہوتے ہیں، ہر کسی کی ویب سائٹ الگ ہوتی ہے جیسے: کسی کی فٹنس ویب سائٹ، کسی کی ای کامرس ویب سائٹ یا کسی کا بلاگ، تو ویب سائٹس مختلف ہوتی ہیں اور ہر کسی کا کام بھی مختلف ہوتا ہے، ای کامرس میں مختلف پروڈکٹس سیل ہوتی ہیں جن میں ہزاروں اقسام کی مصنوعات شامل ہوتی ہیں، فٹنس ویب سائٹس میں باڈی بلڈرز کی تصاویر وغیرہ ہوتی ہیں اور بلاگنگ ویب سائٹس میں تصاویر اور معلومات ہوتی ہیں، اگر کسی ویب سائٹ میں جاندار کی تصاویر یا ویڈیوز ہیں، تو یہ SEO ماہر کا کام نہیں، بلکہ ڈیزائنر کا کام ہے جس نے ویب سائٹ ڈیزائن کی ہے، البتہ SEO ماہر تھوڑی بہت ضرورت کے مطابق تصاویر اور ویڈیوز کو ترتیب دیتا ہے اگر ضرورت پیش آئے۔
واضح رہے "SEO"ایک ایسا عمل ہے جس میں ویب سائٹ کو ایسے ترتیب دیا جاتا ہے کہ وہ انٹرنیٹ سرچ انجنز (مثل گوگل، بنگ، یا یاہو) میں بہتری سے نمایاں ہو، یعنی کسی ویب سائٹ کوسرچ انجن (گوگل وغیر) کےالگوردمزکےمطابق ترتیب دیناتاکہ گوگل میں اسےرینکنگ ملے، بظاہراس عمل میں کوئی خرابی نہیں، جب کہ دیگرشرعی اصولوں کی پابندی ہو، لہٰذاکسی ویب سائٹ کی "ایس ای او" کرانےمیں اگرشرعی اصولوں کی پابندی ہویعنی کسی قسم کی دھوکہ دہی/فراڈوغیرہ نہ ہوتویہ عمل جائزہےاوراس خدمت پرپہلےسےطےشدہ مناسب اجرت لینابھی حلال ہے۔
سنن ابن ماجہ میں ہے:
"حدثنا هشام بن عمار قال: حدثنا سفيان، عن العلاء بن عبد الرحمن، عن أبيه، عن أبي هريرة، قال: مر رسول الله صلى الله عليه وسلم برجل يبيع طعاما، فأدخل يده فيه فإذا هو مغشوش، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ليس منا من غش»".
(كتاب التجارات،باب:النهي عن الغش،ج:2،ص:749،ط:داراحياءالكتب العربية)
الاختیارلتعلیل المختارمیں ہے:
"وأما بيان شرائطها فنقول يجب أن تكون الأجرة معلومة، والعمل إن وردت الإجارة على العمل...وهذا لأن الأجرة معقود به والعمل أو المنفعة معقود عليه، وإعلام المعقود به وإعلام المعقود عليه شرط تحرزا عن المنازعة كما في باب البيع".
(كتاب الإجارات في بدايته، ج:7، ص:395، ط:دار الكتب العلمية)
بدائع الصنائع میں ہے:
"بخلاف الاستئجار لكتابة الغناء والنوح أنه جائز؛ لأن الممنوع عنه نفس الغناء، والنوح لا كتابتهما".
(كتاب الإجارة، فصل في شرائط ركن الإجارة، ج:4، ص:189، ط:مطبعة الجمالية، مصر)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"والأوجه أن يقال الأجير المشترك من يكون عقده واردا على عمل معلوم ببيان عمله".
(كتاب الإجارة، الفصل الأول الحدالفاصل بين الأجيرالمشترك والخاص، ج:4، ص:500، ط:المطبعة الكبري الأميرية)
فتاوی شامی میں ہے:
"يجوز له أخذ الأجرة على الكتابة".
(كتاب الشهادات في بدايته، ج:5، ص:464، ط:سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144602100763
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن