بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1446ھ 21 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

شرکت میں اندازےسے نفع دینے کاحکم


سوال

ایک آدمی کا اپنا کاروبارتھا ،جس میں دوسرے آدمی نے پیسے لگائے اورطے یہ ہواکہ دوسراآدمی صرف پیسے دے گااورکام نہیں کرے گا،اورنفع بھی فیصد کے اعتبار سے طے ہوا،کہ پیسے لگانے والے کوچالیس فیصد جبکہ کام کرنے والے کوساٹھ فیصد ملے گا،اورپھربعد میں طے شدہ فیصد کے اعتبارسے رقم نہیں دی،بلکہ اپنی طرف سے اندازہ کرکے رقم دیتاتھاتواس صورت میں جووہ فیصد کے اعتبار سےطے شدہ  کے بجائے اپنی طرف سے اندازہ کرکے کچھ رقم دیتاتھا تو ان پیسوں کا کیاحکم ہے ،کہ یہ لے سکتاہے یانہیں، کیوں کہ جب اس نےاسے نفع اس مقدار کےبقدر نہیں دیا تو اس نے دل ہی دل میں کہا کہ میں نے جو پیسے دیے تھے وہ قرض ہے؟

جواب

 صورتِ مسئولہ میں مذکورہ معاملہ شرکتِ عنان ہے،اورشرکت عنان یہ ہےکہ مختلف آدمی اپنی اپنی حیثیت کے مطابق مختلف مقدار میں سرمایہ لگاتے ہیں،اور معاہدے کے مطابق نفع کی طے شدہ شرح کے حق دار  ہوتے ہیں، اور سرمایہ کے تناسب سے نقصان کے ذمہ دار ہوتےہیں،متعین رقم کی صورت میں نفع طے کرنا یا اندازے سے نفع دیناجائزنہیں۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں جو معاہدہ طے ہواتھا،یعنی کام کرنےوالے کو نفع کاساٹھ فیصد اورپیسے لگانے  والے کوچالیس فیصد ملے گا،اس طرح کامعاملہ کرناشرعًا درست تھا، لیکن جب کام کرنے والے نے اس طے شدہ فیصد کے بقدر نہیں دیااوراندازے سے دیاتواس کااس اندازے سے دینادرست نہیں تھا، اب نفع کا حساب کرکے چالیس اور ساٹھ فیصد کے تناسب سے نفع کی درست تقسیم کرنی چاہیے۔ نیز اس کا یہ کہناکہ اب یہ قرض ہے درست نہیں،کیوں کہ یہ ایک معاملے  میں دوسرے معاملے  کو داخل کرناہے،جو شرعًا درست نہیں۔

مشکاۃ شریف میں ہے:

"وعن أبي هريرة قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيعتين في بيعة. رواه مالك والترمذي والنسائي".

(‌‌باب المنهي عنها من البيوع،الفصل الثاني، ج:2، ص:861، ط:المكتب الإسلامي)

فتاوی شامی میں ہے:

"وإن شرطا الربح للعامل أكثر من رأس ماله جاز أيضاً على الشرط، ويكون مال الدافع عند العامل مضاربةً، ولو شرطا الربح للدافع أكثر من رأس ماله لايصح الشرط ويكون مال الدافع عند العامل بضاعةً لكل واحد منهما ربح ماله".  

(کتاب الشرکۃ، مطلب فی شرکۃ العنان، ج:4 ، 312، ط:سعید )

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

"شركة العنان  : وهي أن يشترك اثنان في مال لهما على أن يتجرا فيه والربح بينهما  ، وهي جائزة بالإجماع كما ذكر ابن المنذر  ."

(الفصل الخامس الشركات،ج:5، ص:525، ط:دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509100696

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں