کالا کپڑا کالی شلوار پہننا کیسا ہے؟ اور اس بات پر امام سے بد سلوکی کرنا امام کی بے عزتی کرنا اور امام کے بارے میں لوگوں سے چغلی کرنا اور امام کو کہنا تمہارا یہاں سے دانہ پانی اب ختم ہو گیاہے، براہِ کرم وضاحت فرمائیں۔
فی نفسہ کالے کپڑے پہننے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور نہ ہی کالے کپڑے پہننے پر قرآن اور حدیث میں کوئی ممانعت وارد ہے، تاہم آج کل مکمل کالا لباس پہننا اہلِ تشیع کا شعار بن چکا ہے، اس لیے بہتر ہے کہ پورے کالے لباس سے جہاں تک ہوسکے احتیاط رکھیں،خصوصاً جن دنوں میں اہلِ تشیع کالے لباس کا اہتمام کرتے ہیں جس کی مشابہت کی وجہ سے تہمت کا بھی اندیشہ ہوتا ہے، اور اس تہمت کی بناء پر لباس میں ان کی مشابہت سےمنع بھی کیا گیا ہے۔
باقی سیاہ کپڑوں کی وجہ سے امام سے بدسلوکی کرنا ناجائز عمل ہے،کیوں کہ ایک عام مسلمان کو بھی برا بھلا کہنا،بدسلوکی کرنا شرعی اعتبار سے بہت بڑا گناہ ہے،پھر جب وہ بدسلوکی امام کی کی جائے ،اور اس کے بارے میں غلط الفاظ منہ سے نکالے جائیں ،تو گناہ کی سنگینی میں اور اضافہ ہوجاتا ہے،امامت کا مرتبہ تو وہ مرتبہ ہے ،کہ جس پر انبیاء ،خلفاء راشدین،اللہ کے نیک کار لوگ فائز تھے،ایسے مبارک منصب پر جو شخص موجود ہو،اس کے بارے میں نازیبا زبان استعمال کرناگناہ ہے،لہذا جو بھی لوگ اس حرکت میں مبتلا ہیں ،ان کو چاہیے کہ فورًا پہلے امام سے جاکر معافی مانگیں،اگر کوئی شکوہ یا کسی عمل پر اعتراض ہے تو اس کو بیٹھ کر دور کیا جاسکتا ہے ،اور پھر اللہ کے سامنے بھی توبہ واستغفار کرے۔
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:
"قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «من تشبه بقوم فهو منهم» " رواه أحمد، وأبو داود.
(من تشبه بقوم) : أي من شبه نفسه بالكفار مثلا في اللباس وغيره، أو بالفساق أو الفجار أو بأهل التصوف والصلحاء الأبرار. (فهو منهم) : أي في الإثم والخير. قال الطيبي: هذا عام في الخلق والخلق والشعار، ولما كان الشعار أظهر في التشبه ذكر في هذا الباب."
(کتاب اللباس،الفصل الثانی،ج:8،ص:222،ط:مکتبہ حنیفیہ)
احکام القرآن للجصاص میں ہے:
"أن اسم الإمامة يتناول ما ذكرناه، فالأنبياء عليهم السلام في أعلى رتبة الإمامة، ثم الخلفاء الراشدون بعد ذلك، ثم العلماء والقضاة العدول ومن ألزم الله تعالى الاقتداء بهم، ثم الإمامة في الصلاة ونحوها."
(باب القول في بسم الله الرحمن الرحيم، ج:1، ص:83، ط:دار الكتب العلمية)
البحر الرائق شرحِ کنز الدقائق میں ہے:
" ومن أبغض عالماً من غير سبب ظاهر خيف عليه الكفر، ولو صغر الفقيه أو العلوي قاصداً الاستخفاف بالدين كفر، لا إن لم يقصده".
(باب أحكام المرتدين، ج:5، ص:134، ط:دار الكتاب الإسلامي)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601100690
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن