میرا سوال یہ ہے کہ اگر ایک مرد شادی کے بعد بچے نا کرنا چاہتا ہو تو یہ جائز ہے یا نہیں ، اس کے بارے میں تھوڑی رہنمائی فرمائیں۔
صورتِ مسئولہ میں بلا عذرِ شرعی ایسا کرنا جائز نہیں یہ مقاصدِ نکاح کے خلاف ہے۔حدیث شریف میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی عورت سے نکاح کی اجازت چاہی جو حسن وجمال اور اعلی حسب ونسب کی حامل تھی، لیکن بچے نہیں جنتی تھی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ اس شخص کے اجازت لینے کے باوجود اسے اس سے نکاح کی اجازت نہ دی، اور تیسری مرتبہ اجازت لینے پر فرمایا: محبت کرنے والی اور زیادہ بچے جننے والی عورت سے نکاح کرو، اس لیے کہ میں روزِ قیامت تمہارے ذریعے دیگر امتوں پر فخر کروں گا۔
"عَنْ مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنِّي أَصَبْتُ امْرَأَةً ذَاتَ حَسَبٍ وَجَمَالٍ، وَإِنَّهَا لَا تَلِدُ، أَفَأَتَزَوَّجُهَا، قَالَ: «لَا» ثُمَّ أَتَاهُ الثَّانِيَةَ فَنَهَاهُ، ثُمَّ أَتَاهُ الثَّالِثَةَ، فَقَالَ: «تَزَوَّجُوا الْوَدُودَ الْوَلُودَ فَإِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمُ الْأُمَمَ»."
( سنن ابي داود، كتاب النكاح، باب النهي عن تزويج من لم يلد من النساء، رقم الحديث: 2050)
الدر المختار میں ہے:
"(والإذن في العزل) وهو الإنزال خارج الفرج (لمولى الأمة لا لها) لأن الولد حقه، وهو يفيد التقييد بالبالغة وكذا الحرة نهر. (ويعزل عن الحرة) وكذا المكاتبة نهر بحثا (بإذنها) لكن في الخانية أنه يباح في زماننا لفساده قال الكمال: فليعتبر عذرا مسقطا لإذنها، وقالوا يباح إسقاط الولد قبل أربعة أشهر ولو بلا إذن الزوج (وعن أمته بغير إذنها) بلا كراهة، فإن ظهر بها حبل حل نفيه إن لم يعد قبل بول."
(الدر المختار،175/3، سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144311101007
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن