دوسری شادی کے لیے کون سی لڑکی کا ہونا زیادہ بہتر ہے، پسند کی بیوہ ، یا کسی غریب خاندان کی لڑکی۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔
شادی چاہے پہلی ہو یا دوسری ہو ، از رُوئےحدیث اس میں دینداری کو ترجیح دینے کی ترغیب ہے، جیسا کہ مروی ہے:
"وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: "تنكح المرأة لأربع: لمالها ولحسبها ولجمالها ولدينها فاظفر بذات الدين تربت يداك."
(مشکوۃ المصابیح، کتاب النکاح ، الفصل الاول، ج:2، ص:267،ط:قدیمی کراچی)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی عورت سے نکاح کرنے کے بارے میں چار چیزوں کو ملحوظ رکھا جاتا ہے: اول: اس کا مال دار ہونا۔ دوم: اس کا حسب نسب والی ہونا۔ سوم: اس کا حسین وجمیل ہونا۔ چہارم: اس کا دین دار ہونا، اس لیے اے مخاطب! تم دیندار عورت کو اپنا مطلوب قرار دو! خاک آلودہ ہوں تیرے دونوں ہاتھ!
تاہم عام حالات میں کنواری سے شادی کرنا بہتر ہے، البتہ اگر کسی تجربہ کارمعاملات فہم سنجیدہ خاتون کی ضرورت ہوتو بیوہ سے نکاح کرنا بہتر ہے۔
حدیث شریف میں ہے:
"عن جابر بن عبد الله، أن عبد الله هلك، وترك تسع بنات - أو قال سبع - فتزوجت امرأة ثيبا، فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يا جابر، تزوجت؟» قال: قلت: نعم، قال: «فبكر، أم ثيب؟» قال: قلت: بل ثيب يا رسول الله، قال: «فهلا جارية تلاعبها وتلاعبك»، أو قال: «تضاحكها وتضاحكك»، قال: قلت له: إن عبد الله هلك، وترك تسع بنات - أو سبع -، وإني كرهت أن آتيهن أو أجيئهن بمثلهن، فأحببت أن أجيء بامرأة تقوم عليهن، وتصلحهن، قال: «فبارك الله لك» أو قال لي خيرا، وفي رواية أبي الربيع: «تلاعبها وتلاعبك، وتضاحكها وتضاحكك»".
(صحیح مسلم، کتاب النکاح، باب استحباب نكاح البكر، 2، ص:1087، ط:داراحیاءالتراث العربی)
ترجمہ: حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ (میرے والد) عبداللہ رضی اللہ عنہ نے وفات پائی اور پیچھے نو بیٹیاں یا کہا: سات بیٹیاں چھوڑیں تو میں نے ایک ثیبہ (دوہاجو) عورت سے نکاح کر لیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا: "جابر! نکاح کر لیا ہے؟"میں نے عرض کی: جی ہاں۔ آپ نے پوچھا: "کنواری ہے یا دوہاجو؟" میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! دوہاجو ہے۔ آپ نے فرمایا: "کنواری کیوں نہیں، تم اس سے دل لگی کرتے، وہ تم سے دل لگی کرتی یا فرمایا: تم اس کے ساتھ ہنستے کھیلتے، وہ تمہارے ساتھ ہنستی کھیلتی" میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی: (میرے والد) عبداللہ رضی اللہ عنہ نے وفات پائی اور پیچھے نو یا سات بیٹیاں چھوڑیں، تو میں نے اچھا نہ سمجھا کہ میں ان کے پاس انہی جیسی (کم عمر) لے آؤں۔ میں نے چاہا کہ ایسی عورت لاؤں جو ان کی نگہداشت کرے اور ان کی اصلاح کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تمہیں برکت دے!"یا آپ نے میرے لیے خیر اور بھلائی کی دعا فرمائی۔ اور ابوربیع کی روایت میں ہے: "تم اس کے ساتھ دل لگی کرتے وہ تمہارے ساتھ دل لگی کرتی اور تم اس کے ساتھ ہنستے کھیلتے، وہ تمہارے ساتھ ہنستی کھیلتی۔
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603101263
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن