بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 ذو القعدة 1446ھ 29 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

شب قدر معلوم ہوتی تو اعتکاف کا کیا حکم ہوتا؟


سوال

اگر شب قدر معلوم ہوتی تو اس صورت میں اعتکاف کرنا درست تھا یا نہیں؟

جواب

بصورتِ مسئولہ اولاً یہ واضح رہے کہ  نفسِ اعتکاف  تو ایسی عبادت ہے جو سابقہ انبیاءِ کرام علیہم السلام کے زمانے سے چلی آرہی ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"وَعَهِدْنَا إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَن طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ."(سورة البقرة/125)

ترجمه:"اور ہم نے حضرت ابراہیم و حضرت اسماعیل کی طرف حکم بھیجا کہ میرے (اس) گھر کو خوب پاک رکھا کرو۔ بیرونی ا ور مقامی لوگوں (کی عبادت) کے واسطے اور رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے واسطے۔(بیان القران ، ج:1، ص:90، ط:مکتبہ رحمانیہ)

لہذا مذکورہ آیت میں اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ  حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بیت اللہ کی تعمیر کے بعدطواف کرنے والوں، اعتکاف کرنے والوں اور نماز ادا کرنے والوں کے لیے اسے (بیت اللہ کے) پاک صاف رکھنےکا حکم فرمایا ہے، گویا طواف ونماز کی طرح اعتکاف بھی اللہ تعالیٰ کے قرب کا خاص ذریعہ ہے کہ باری تعالیٰ اپنے دو برگزیدہ پیغمبروں کو معتکفین کی خدمت اور ان کے اعزاز میں مسجدِ حرام کی صفائی اور خدمت کا حکم ارشاد فرمارہے ہیں۔اور پھر رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف رسولِ خدا ﷺ کی خاص سنت ہے،لہذا یہ سوچ و فکر کہ نفسِ اعتکاف کی مشروعیت خاص  شب قدر کی وجہ سے ہوئی ہے، درست نہیں ۔ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ آپ ﷺ نے رمضان المبارک میں شب قدر کی تلاش کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرمایاتھا، اور امت کو بھی آخری عشرہ کے اعتکاف  کرنے اور اُس کی طاق راتوں میں شبِ قدر کا ثواب حاصل کرنے کی تاکید فرمائی تھی۔لہذا شبِ قدر کی خاص تعیین اٹھانے کی وجہ سے جو بندہ اِن دس ایام میں(بالخصوص طاق راتوں میں) اعتکاف اور دیگر عبادات کرے گا تو اُسے شبِ قدر کا ملنا متوقع ہے۔مزید تفصیل کے لیے "شبِ قدر" سے متعلق جامعہ بنوری ٹاؤن کی ویب سائٹ پر موجود منسلکہ فتویٰ ملاحظہ ہو:

شب قدر پانے کا طریقہ اور اس کے اعمال

صحیح بخاری میں ہے:

"عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يعتكف في العشر الأوسط من رمضان، فاعتكف عاماّ، حتى إذا كان ليلة إحدى وعشرين، وهي الليلة التي يخرج من صبيحتها من اعتكافه، قال: «من كان اعتكف معي، فليعتكف العشر الأواخر، وقد أريت هذه الليلة ثم أنسيتها، وقد رأيتني أسجد في ماء وطين من صبيحتها، فالتمسوها في العشر الأواخر، والتمسوها في كل وتر»، فمطرت السماء تلك الليلة وكان المسجد على عريش، فوكف المسجد، فبصرت عيناي رسول الله صلى الله عليه وسلم على جبهته أثر الماء والطين، من صبح إحدى وعشرين."

(كتاب الإعتكاف، ‌‌باب الاعتكاف في العشر الأواخر، والاعتكاف في المساجد كلها، رقم الحديث:2027، ج:3، ص:48، ط:دار طوق النجاة)

ترجمہ:حضرت ابو سعید خدری ؓ  مروی ہےکہ : نبی کریم ﷺ نے رمضان المبارک کے پہلے عشرہ میں اعتکاف فرمایا اور پھر دوسرے عشرہ میں بھی ، پھر  خیمہ سے جس میں اعتکاف فرمارہے تھے، سر باہر نکال کرارشاد فرمایا :کہ میں نے پہلے عشرہ کااعتکاف شبِ قدر کی تلاش اور اہتمام کی وجہ سے کیا تھا ،پھر اسی کی وجہ سے دوسرے عشرہ میں کیا ، پھر مجھے کسی بتلانے والے (یعنی فرشتہ )نے بتلایا کہ وہ رات اخیر عشرہ میں ہے ۔ لہٰذا جو لوگ میرے ساتھ اعتکاف کررہے ہیں وہ اخیر عشرہ کا بھی اعتکاف کریں ۔ مجھے یہ رات دکھلا دی گئی تھی پھر بھلا دی گئی ،(اس کی علامت یہ ہے کہ) میں نے اپنے آپ کو اس رات کے بعد کی صبح میں گیلی مٹی میں سجدہ کرتے دیکھا، لہٰذا اب اس کو اخیر عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو ۔ راوی کہتے ہیں :کہ اس رات میں بارش ہوئی اور مسجد چھپر کی تھی وہ ٹپکی اور میں نے اپنی آنکھوں سے نبی کریم ﷺ کی پیشانی مبارک پر کیچڑ کا اثر اکیس(۲۱ویں ) کی صبح کو دیکھا ۔ 

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"قال ابن الهمام: قد ورد أنه - عليه الصلاة والسلام - اعتكف في العشر الأوسط، فلما فرغ أتاه جبريل - عليه الصلاة والسلام - فقال: " إن الذي تطلب أمامك " يعني ليلة القدر، فاعتكف العشر الآخر، وعن هذا ذهب الأكثر أنها في العشر الآخر من رمضان، فمنهم من قال: في ليلة إحدى وعشرين، ومنهم من قال: في ليلة سبع وعشرين، وقيل غير ذلك.وعن أبي حنيفة: أنها في رمضان، فلا يدرى أية ليلة هي، وقد تتقدم أو تتأخر، وعندهما كذلك إلا أنها معينة لا تتقدم ولا تتأخر."

(كتاب الصوم،باب ليلة القدر، ج:4، ص:1437، ط:دارالفكر)

فقط والله تعالى اعلم


فتوی نمبر : 144609101984

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں